شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے چینی کی برآمد کی اجازت کے لئے سفارشات ای سی سی کو ارسال

شوگر ملیں چینی کی قیمت کو 2015ء کے مطابق برقرار رکھے گیں اوراگر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو برآمد کرنے کیلئے دی جانے والی اجازت کو منسوخ کردیاجائے گا ،درست پالیسی سازی کا پہلا مرحلہ ریسرچ ہو تا ہے جس کا ہماے ملک میں فقدان ہے،نئی ایس ایم ای پالیسی کی بنیادتمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور محققین کے تحقیق پر رکھی جائے گی‘وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ خان جتوئی کاانٹرنیشنل ایس ایم ای کانفرنس سے خطاب

جمعرات 16 مارچ 2017 22:21

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 مارچ2017ء) وفاقی وزیر صنعت و پیدوار غلام مرتضیٰ خان جتوئی نے کہا ہے کہ شوگر ملز ایسوسی ایشن کی جانب سے چینی کی برآمد کی اجازت کے لئے سفارشات ای سی سی کو ارسال کر دی ہیں ، شوگر ملیں چینی کی قیمت کو 2015ئ کے مطابق برقرار رکھے گیں اوراگر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو برآمد کرنے کیلئے دی جانے والی اجازت کو منسوخ کردیاجائے گا ،درست پالیسی سازی کا پہلا مرحلہ ریسرچ ہو تا ہے جس کا ہماے ملک میں فقدان ہے،نئی ایس ایم ای پالیسی کی بنیادتمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور محققین کے تحقیق پر رکھی جائے گی۔

وہ جمعرات کو سمال اینڈ میڈیم انٹر پرائزز ڈویلپمنٹ اتھارٹی ’سمیڈا‘ کے زیر اہتمام، یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے اشتراک سے منعقدہ انٹرنیشنل ایس ایم ای کانفرنس کی اختتامی نشست سے بطور مہمان خصوصی خطاب اور بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔

(جاری ہے)

اختتامی نشست سے سمیڈا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شیر ایوب، ایسوسی ایشن آف مینجمنٹ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹس پاکستان چیئرمین ڈاکٹر شاہد امجد چوہدری، یونیورسٹی آف لاہور کے چیئرمین پروفیسر اویس رو?ف اور یو ایم ٹی کے سکو ل آف بزنس اینڈ اکنامکس کے ڈین پروفیسر رابرٹ ایف وہیلر نے بھی خطاب کیا۔

وفاقی وزیر غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ شوگر انڈسٹری کو حکومت نے ڈھائی لاکھ ٹن چینی سبسڈکی سہولت کے ساتھ برآمد کرنے کی اجازت دی تھی جس میں سے اب تک 68ہزار ٹن چینی برآمد کرچکے ہیں جبکہ باقی چینی کو برآمد کرنے کیلئے انہوںنے مدت میں 2ماہ کااضافہ مانگا ہے۔اس کے علاوہ مزید چار لاکھ ٹن چینی بغیر سبسڈی کے برآمد کرنے کی بھی اجازت مانگی ہے۔

وفاقی وزارت صنعت و پیداوار نے ان کے مطالبات پر سفارشات مرتب کر کے ای سی سی کو مشروط طور پر ارسال کردی ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ شوگر ملیں چینی کی قیمت کو 2015ئ کے مطابق برقرار رکھے گیں اوراگر قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو چینی برآمد کرنے کے کیلئے دی جانے والی اجازت کو منسوخ کردیاجائے گا۔ تاہم شوگر ملوں کو چینی کی برآمد کی اجازت دینے کا فیصلہ ای سی سی کر ے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہا کہ آٹو پالیسی کو تبدیل نہیں کیا جارہا موٹر سائیکل سیکٹر کے حوالے سے پالیسی میں ایک ابہام تھا جس کو درست کر کے منظوری کیلئے ای سی سی کو ارسال کردیا گیا۔ انہوں نے کہاکہ درست پالیسی سازی کا پہلا مرحلہ ریسرچ ہو تا ہے جس کا ہماے ملک میں فقدان ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ملکو ں کی ترقی ایس ایم ای پر ہونے والے ریسرچ کی مرہون منت ہے۔

ریسرچ پر مبنی ایس ایم ای ڈویلپمنٹ پلان قوموں کو معاشی خوشحالی کی منزل تک لے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ہماری وزارت کے ماتحت ادارے سمیڈا نے قومی اور بین الاقوامی یونیورسٹیوں کو ایک متحدہ پلیٹ فارم پر اکھٹا کر کے بہت بڑا کام کیا ہے۔ جس سے پاکستان میں ایس ایم ای کی ترقی کیلئے درکار تحقیی سرگرمیوں کا خلائ پر ہو جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ مذکورہ کانفرنس میں پیش کیے جانے والے تحقیقی مقالوں میں پاکستان کے ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی کیلئے متعدد کارگر تجاویز موجود ہیں جنہیں آئیندہ ایس ایم ای پالیسی میں شامل کیا جائے گا۔ غلام مرتضیٰ جتوئی نے کہا کہ موجودہ حکومت ملک سے غربت اور بے روزگاری کو ختم کرنے کا عزم کئے ہوئے ہے جس کیلئے ایس ایم ای سیکٹر کی ترقی بہترین راستہ ہے۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ نئی ایس ایم ای پالیسی کی بنیادتمام سٹیک ہولڈرز کی مشاورت اور محققین کے تحقیق پر رکھی جائے گی۔انہوں نے سمیڈا کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ہدائت کی کہ ایس ایم ای سیکٹرکے سٹیک ہولڈرز کے ساتھ رابطے اور مشاورت کے عمل کو زیا دہ سے زیادہ مضبوط بنا یا جائے۔قبل ازیں سمیڈا کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شیر ایو ب خان نے اپنے خطبہئ استقبالیہ کے دوران کہا کہ گزشتہ ڈیڑھ دن کے دوران کانفرنس میں محققین کے مقالوں کے علاوہ قومی اور بین الاقوامی ایس ایم ای ایکسپرٹس نے اپنی تجاویز بھی پیش کی ہیںجس رپورٹ بہت جلد مرتب کر کے حکومت کو ارسال کر دی جائے گی۔

نے بتا یا کہ سمیڈا کو کانفرنس کیلئے 15 قومی اور عالمی یونیورسٹیوں سے کل 40 تحقیقی مقالے موصول ہوئے تھے ہیں مگر کانفرنس میں پیش کرنے کیلئے صرف 12 مقالے منتخب کئے گئے ہیںجس سے کانفرنس کے اعلیٰ معیار کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مزید بتا یا کہ امریکہ، برطانیہ، ترکی، جاپان، اٹلی ، ملائشیا، نیدر لینڈ، جرمنی اور چین سے آنے والے بین الاقوامی مندوبین کے علاوہ پاکستان کے 40 سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے نمائیدگان مقررین اور پینلسٹ کے طور پر مذکورہ کانفرنس میںشرکت کی۔

انہوں نے کانفرنس کے انعقاد میںیونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کی خدمات پر خصوصی شکریہ ادا کیا ہے جبکہ یونیورسٹی آف لاہور، ایسوسی ایشن آف مینجمنٹ ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹس پاکستان، جارج میسن یونیورسٹی، یونیڈو، پاکستان سٹاک ایکسچینج، انویسٹمنٹ پروموشن یونٹ اور بی سی این ای ڈی کے تعاون کا بھی اعتراف کیا ہے۔

متعلقہ عنوان :