چیئرمین سینیٹ حسین حقانی کے متنازع بیان بارے تحریک التواء بحث کیلئے منظورکر لی، آئندہ منگل کو بحث ہوگی

اگرچہ اس معاملے پر چھ ماہ قبل سینیٹ میں ان کیمرہ اجلاس میں بات ہو چکی ہے ، اب تحریک التواء آگئی ہے ، میڈیا میںکوئی غلط پیغام نہ جائے اس لئے وہ تحریک کو بحث کے لئے منظورکر رہے ہیں، رضاربانی کے ریمارکس تحریک کے محرکین میں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف شامل

جمعرات 16 مارچ 2017 17:52

چیئرمین سینیٹ حسین حقانی کے متنازع  بیان بارے تحریک التواء بحث کیلئے ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 مارچ2017ء) چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے جمعرات کو امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے سابقہ حکمران جماعت کی منظوری سے سی آئی اے کے ایجنٹوں کو پاکستان میں بلاروک ٹوک آنے کی سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے بیان بارے میں تحریک التواء کو بحث کیلئے منظورکر لیا آئندہ منگل کو اس معاملے پر ایوان بالا میں بحث ہوگی ۔

چیئرمین سینیٹ نے واضح کیا کہ اگرچہ اس معاملے پر چھ ماہ قبل سینیٹ میں ان کیمرہ اجلاس میں بات ہو چکی ہے کیونکہ اب تحریک التواء آگئی ہے اور میڈیا میںکوئی غلط پیغام نہ جائے اس لئے وہ تحریک کو بحث کے لئے منظورکر رہے ہیں، ایوان میں اس تحریک کی محرکین میںپاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں۔

(جاری ہے)

ایوان میں معلومات تک رسائی کے بل 2016 ء کے بارے میں منتخب کمیٹی کی رپورٹ پیش کر دی گئی ہے ۔

گزشتہ روز اجلاس کے ایجنڈے میں سینٹر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور محسن عزیز کی امریکہ میںپاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی کے واشنگٹن پوسٹ میں دس مارچ 2017 ء کو شائع آرٹیکل جس میں سابق سفیر نے اعتراف کیا کہ اس وقت کے حکمران جماعت کی منظوری سے سی آئی اے کے ایجنٹوں کو پاکستان میں بلاروک ٹوک آنے کی سہولت فراہم کی گئی تھی سے متعلق تحریک التواء کے پیش نظر چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اس معاملے پر عوامی معاملے اور توجہ مبذول کرانے کے نوٹس کے تحت پہلے بھی بحث ہو چکی ہے اس پر متعلقہ وزیر کا جامع جواب آچکا ہے ۔

داخلی امن وامان سے متعلق سینٹ کے ان کیمرہ اجلاس میں ضابطے کے تحت اس معاملے کے بارے میں سوال ہوا تھا اور چھ ماہ قبل وزیر نے اس کا جواب بھی دیا۔ تحریک کے محرک لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالاقیوم نے نے کہا کہ سابق سفیر کا حال ہی میں اعتراف سامنے آیا ہے ۔ تازہ بیان اخبار میں شائع ہوا ہے انہوں نے انفرادی حیثیت میں نہیں بلکہ سفارتی ذمہ داریوں کے حوالے سے یہ اعتراف کیا ہے ۔

یہ معاملہ اب کسی عدالت میں زیر بحث بھی نہیں ہے۔ سابق سفیر پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں قومی سلامتی کا معاملہ ہے تحریک کو بحث کے لئے منظورکرنا ضروری ہے۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں زیرسماعت آچکا ہے تاہم میڈیا میں کوئی غلط پیغام نہ جائے اس لئے وہ تحریک کو بحث کے لئے منظور کرتے ہیں۔ چئیرمین سینت نے کہا کہ اس تحریک پر آئندہ منگل کو دو گھنٹے بحث ہوگی اور یہ آخری ایجنڈا آئٹم ہوگا۔

قبل ازیں چئیرمین منتخب کمیٹی برائے معلومات تک رسائی بل 2016 ء سینڑ فرحت اللہ بابر ن معلومات تک فوری اور سستی رسائی کے اہتمام کے بل جو قانون کے تحت معقول پابندیوں کے تابع ہو نے کے بارے میں معلومات تک رسائی بل 2016 ء پیش کیا انہوں نے کہا کہ بل کے تحت تمام شخصیات کو ملنے والی زمینوں ، پلاٹس ، مراعات ، الائونسز کے بارے میں بھی پوچھا جا سکے گا اور متعلقہ ادارے اس قسم کی تمام معلومات کو ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے ۔

ملکی تاریخ میں پہلی بار اس قسم کا قانون بن رہا ہے کیونکہ ہمارے ادارے میں ایسی ذہنیت کارفرما رہی ہے جو ہر معاملے کو خفیہ رکھتی ہے یہاں تک کہ جب کارگل کے واقع کے بارے میں سوالات کئے گئے تو اس کے جواب بھی نہیں آئے اب نام نہاد قومی سلامتی کی آڑ میں کسی بھی معلومات کو نہیں چھیایا جا سکے گا اگر کوئی ادارہ معلومات نہیں دے گا تو درخواست گزار تین رکنی باختیار قومی کمیشن کو شکایت کر سکے گا۔

یہ کمیشن ریٹائر بیوروکریٹ، ریٹائر جج اور سول سوسائٹی کے رکن پر مشتمل ہوگا۔ اور اس کمیشن کے اراکین کو وزیراعظم بھی نہیں ہٹا سکیں گے۔ اراکین کی معطلی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہوگا۔ انہوں نے کہا شہریوں کوحراست میں رکھنے ، انہیں عقوبت خانون میں لے جانے یا گھروں سے اٹھانے کے واقعات کی بھی آگاہی دینا ضروری ہوگا۔ کمیٹی کے رکن مظفر حسین شاہ نے بھی معلومات تک رسائی کے اس بل کو تاریخی قراردیا اور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت شہریوں کو بااختیار بنایا جارہا ہے اور ان کی دسترس میں ہر طرح کی معلومات ہو ں گی ۔ بھارت سمیت اہم ممالک سے بل کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔