حکومت نے دبائو کے باوجود خدمات کی بہترین فراہمی کیلئے نظام کی تبدیلی ،سرکاری اداروں کی بہتری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا،پرویز خٹک

پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے پولیس کو آئیڈیل ماحول دیا تاکہ پولیس پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جا سکے، آئی جی پی کے اعزاز میں دیئے گئے الوداعی عشائیہ سے خطاب

بدھ 15 مارچ 2017 23:02

حکومت نے دبائو کے باوجود خدمات کی بہترین فراہمی کیلئے نظام کی تبدیلی ..
پشاور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 مارچ2017ء) وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے کہا ہے کہ خدمات کی فراہمی کیلئے اداروں کی بحالی اور ایک قابل عمل اور جوابدہ نظام کا قیام ہمیشہ سے ایک مشکل کام رہا ہے۔اُن کی حکومت نے دبائو تو لے لیا مگر خدمات کی بہترین فراہمی کیلئے نظام کی تبدیلی اور سرکاری اداروں کی بہتری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔

اب پولیس ایک پروفیشنل فورس بن چکی ہے۔اس مقصد کیلئے اُن کی حکومت نے متعدد اقدامات کئے ہیں۔پولیس کو سیاسی مداخلت اور ہر قسم کے اثر و رسوخ سے آزاد کیا ۔پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے پولیس کو آئیڈیل ماحول دیا تاکہ پولیس پر عوام کا کھویا ہوا اعتماد بحال کیا جا سکے ۔ وہ وزیراعلیٰ ہائوس پشاور میں سبکدوش ہونے والے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کے اعزاز میں دیئے گئے الوداعی عشائیہ سے خطاب کر رہے تھے ۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ نے پولیس کی ماضی کی ناقص خدمات پر بات کرتے ہوئے کہاکہ پہلے پولیس کے خلاف عوام کی شکایات بہت زیادہ تھیں ۔جو لوگ پولیس کو تعینات کرتے تھے وہی پولیس کو اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے استعمال کرتے تھے ۔موجودہ حکومت نے اصلاحات متعارف کروائیںاور پولیس کو مالی اور آپریشنل خود مختاری دی ۔اُن کی حکومت نے پولیس کی تعیناتیوں اور تبادلوں میں سیاسی مداخلت کی حوصلہ شکنی کی اور چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی رکھا جس نے پولیس کی کارکردگی میں خاطر خواہ اضافہ کیا۔

ان اقدامات کی وجہ سے پولیس پر عوام کے اعتماد کو بحال کرنے میں کامیاب ہوئے ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُنہوںنے پولیس کو کہا کہ اُن کی حکومت تھانہ کلچر کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔کرپشن اور تھانوں میں بہیمانہ تشددکا خاتمہ چاہتی ہے جس نے پولیس کو بد نام کر رکھا تھا ۔انہوںنے کہاکہ تھانوں میں غلط ایف آئی آر کا اندراج قبول نہیں ہو گا۔ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے پولیس عوامی مسائل کے ازالے اور لوگوں کی خدمت کیلئے ایک پروفیشنل فور س بن کر اُبھری ۔

پرویز خٹک نے کہاکہ نظام کی تبدیلی اور اداروں کی تشکیل کو ئی آسان کام نہیں تھا اصلاحات کے اس عمل میں انہیں سٹیٹس کو کی قوتوں کی طرف سے مختلف قسم کے دبائو اور رکاوٹوں کا سامنا تھا ۔وزیراعلیٰ نے کہاکہ اُن کے لئے یہ بہت ہی آسان تھا کہ پولیس کو پہلے کی طرح کام کرنے دیتے اور اُس سے ذاتی مفاد حاصل کرتے اور اپنے ذاتی مقاصد کیلئے پولیس کا استعمال کرتے لیکن یہ عوامی مفاد کے بالکل خلاف تھا ۔

اُن کی حکومت نے سوچا کہ جتنا کچھ ماضی میں ہو گیا وہ کافی ہے۔اب پولیس کو عوامی فلاح کیلئے کام کرنا ہے۔اُسے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کے ساتھ انصاف کرنا ہے ۔عوامی شکایات کا ازالہ کرنا ہے۔انہوںنے کہاکہ پولیس سمیت مختلف سرکاری اداروں میں انہوںنے جو اصلاحات متعارف کرائیں ایک خوشگوار تجربہ ہے ۔انہوںنے کہاکہ محکمہ پولیس میں جو کمزوریاں رہ گئی ہیں اُن کو دور کرنے کیلئے ابھی مزید کام کرنا ہے۔

لوگوں کو ابھی تک پولیس سے متعلق بعض اوقات شکایات ہوتی ہیں۔ ہم نے پولیس کیلئے ایک درست سمت کا تعین کر دیا ہے اور اب ہم بہترین ٹریک پر جارہے ہیں۔انہوںنے انکشاف کیا کہ گزشتہ چار سالوں کے دوران ہر طبقے سے لوگوں نے سفارش کیلئے کوشش کی لیکن انہوںنے انکار کیاکیونکہ وہ پولیس کو ایک مخلص اور پروفیشنل فور س دیکھنا چاہتے تھے جو لوگوں کی توقعات کے مطابق خدمات فراہم کرسکے ۔

انہوںنے یاد دلایا کہ قانون سازی سے پہلے ہی وہ اپنے تمام اختیارات پولیس کو منتقل کر چکے تھے تاکہ خدمات کی فراہمی کے سلسلے میں وہ کوئی معذرت نہ کر سکیں۔ اب این ٹی ایس کے ذریعے نوجوان لوگ پولیس میں آرہے ہیںجو قومی جذبے اور ایمانداری کے ساتھ کام کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں۔اب پولیس کو سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔

ہم اختیارات کے ایک ہاتھ میں ارتکاز کی حمایت نہیں کرتے ۔ہم ایک چیک اینڈ بیلنس کے میکنزم کے ساتھ اختیارات کو منتقل کرنا چاہتے ہیںتاکہ نظام کو خدمات کی فراہمی کیلئے دوبارہ قابل عمل بنا یا جا سکے۔اُن کی حکومت آنے والی نسل کو ایک بہترین نظام دیناچاہتی ہے ۔انہوںنے بیوروکریسی کیلئے اصلاحات کا بھی عندیہ دیا تاکہ وہ سیاسی اثر و رسوخ کے بغیر کام کرنے کے قابل ہو سکیں۔

پرویز خٹک نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ سیاسی قیادت اور فیصلہ کرنے والے لوگوں کے الفاظ اور اعمال ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔وہ چاہتے ایک چیز ہیں جبکہ عملاً کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں۔اس سوچ اور طرز عمل کو اب ختم ہونا چاہیئے۔ اُن کی حکومت سب کیلئے انصاف چاہتی ہے ۔ لوگوں کے حقوق کا تحفظ چاہتی ہے ۔میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ سازی اور حقدار کو حق دینا چاہتی ہے۔

ان مقاصد کیلئے ایک خود کار نظام ہونا چاہیئے جس میںعوام کو خدمات تک آسان رسائی کیلئے گنجائش موجود ہو۔انہوںنے سبکدوش ہونے والے انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی کو سراہاجنہوںنے پروفیشنل انداز میں خدمات انجام دیں اور عوام کا دل جیتا۔انہوںنے اُمید ظاہر کی کہ نئے آنے والے انسپکٹر جنرل بھی ناصر خان درانی کے شروع کردہ کام کو آگے بڑھائیں گے۔

انسپکٹر جنرل پولیس ناصر خان درانی نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا میں قیام اُن کے کیئریر کا بہترین تجربہ ہے۔سیاسی قیادت نے اُن کو ایک ویژن دیا اور انہوںنے نیک نیتی کے ساتھ اُس کو عملی جامہ پہنایا ۔آئی جی نے کہاکہ یہ بات بڑی ہی حیران کن ہے کہ ایک سیاسی قیادت اپنے اختیارات اداروں کو کس طرح منتقل کر سکتی ہے۔انہوںنے تاریخ میں پہلی مرتبہ اختیارات کی منتقلی کا یہ عمل دیکھا ۔انہوںنے پی ٹی آئی کی قیادت کو سلام پیش کیا جس نے خود تو دبائو لے لیا مگر اُس دبائو کو پولیس فورس کو کبھی منتقل نہیں کیا ۔وزیراعلیٰ نے اس موقع پر ناصر خان درانی کو اُن کے قیام کے دوران عوام کیلئے بہترین خدمات کی فراہمی کے اعزاز میں شیلڈ بھی پیش کی۔

متعلقہ عنوان :