ایف بی آر افسران کی ترقیاں: سپریم کورٹ نے اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ کافیصلہ کالعدم قراردیدیا

عدالت کا ایک ماہ میں از سر نو بورڈ اجلاس بلا کر ایف بی آر افسران کی پرموشن کاجائزہ لینے کا حکم ،اسحاق ڈار اورخواجہ ظہیر کی اجلاس میں شرکت پر حیرت کا اظہار منظور نظر کوترقی دینے کے لیے اہل افسران کوبائی پاس کیا جاتا ہے، اسحاق ڈار اور خواجہ ظہیرکس قانون کے تحت اجلاس میں شریک ہوئی چیف جسٹس ثاقب نثار کے ریمارکس دونوں نے وزیر اعظم کی دعوت پر اجلاس میں شر کت کی ،آئندہ اجلاس میں کوئی اجنبی نہیںبیٹھے گا،سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی اجلاس کو یقین دہانی

بدھ 15 مارچ 2017 17:00

ایف بی آر افسران کی ترقیاں: سپریم کورٹ نے اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ کافیصلہ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 مارچ2017ء) سپریم کورٹ نے ایف بی آر کے گریڈ 21 سی22 میں ترقیوں سے متعلق کیس میں اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ کے یکم اگست 2016 کی پرموشنز کے فیصلہ کولعدم قرار د دیتے ہوئے ایک ماہ میں از سر نو اعلیٰ سطحی بورڈ کا اجلاس بلا کر ایف بی آر افسران کی پرموشن کاجائزہ لینے کا حکم دیدیا ہے ، عدالت عظمیٰ نے ہدایت کی ہے کہ اجلاس ممبران کے علاوہ کوئی اجنبی شریک نہ ہو جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ منظور نظر کوترقی دینے کے لیے اہل افسران کوبائی پاس کیا جاتا ہے، اسحاق ڈار اور خواجہ ظہیرکس قانون کے تحت اجلاس میں شریک ہوئی ۔

کیس کی سماعت چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے کی ہے ۔ دوران سماعت عدالت نے بورڈ اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اعظم کے مشیر خواجہ ظہیر احمد کی شرکت پر حیرت کا اظہار کیا ہے اور چیف جسٹس نے کہا کہ اسحاق ڈار اور خواجہ ظہیر کی اجلاس میں شرکت کے اہل نہیں تھے ،دونوں کی اجلاس میں شرکت کی حیثیت اجنبی سے زیادہ نہیں تھی،اسحاق ڈار کس قانون کے تحت اجلاس میں شریک ہوئے، جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اسحاق ڈار کے پاس افسران سے متعلق کیامعلومات تھیں جوچیئرمین ایف بی آر کے پاس نہ تھی ، اس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز نے عدالت کو بتایا کہ دونوں نے وزیر اعظم کی دعوت پر اجلاس میں شرکت کی ، اسحاق ڈار اکنامک کوآرڈینیشن بھی چیئر کرتے ہیں ہیں اس لیے بھی انہیں بلایا گیا ہے ، ممبران کے علاوہ کسی اور کی شرکت پر کوئی پابندی رول میں نہیں ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ لگتا ہے خاتون افسر کو ٹارگٹ کرکے پرموشن نہ دی گئی ، چیف جسٹس نے کہا کہ منظور نظر کوترقی دینے کے لیے اہل افسران کوبائی پاس کیا جاتا ہے جبکہ جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ جن کو ترقی ملی ان کیخلاف متعدد رپورٹس موجود تھیں ، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اچھی شہرت اور قابل افراد کی عوام کی حکومت بنیادی حقوق میں شامل ہے ، بیورو کریٹس ہی حکومت کوچلاتے ہیں،سینئر افسران کونظر انداز کرنے کی وجہ نہیںبتائی گئی۔

(جاری ہے)

جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ اجنبی لوگ بیٹھے گے تو ایسے ہی فیصلے ہونگے اس پر سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آئندہ اجلاس میں کوئی اجنبی نہیںبیٹھے گا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ انصاف فراہم کرنے کی ذمہ داری عدالت کے ساتھ ہر اعلیٰ منصب پربیٹھے افسر کی بھی ہے،زیادہ بات کرنا نہیں چاہتے تاکہ معاملہ کسی دوسری طرف نہ چلا جائے ، عدالت نے فریقین کو سننے کے بعد اعلیٰ سطحی سلیکشن بورڈ کے یکم اگست 2016 کی پرموشنز کے فیصلہ کولعدم قرار د دیتے ہوئے افسران کی پرموشن کے لیے از سر نو اجلاس بلانے کا حکم دیدیا اور ہدایت کی ہے کہ اجلاس کے فیصلے سے عدالت کو آگاہ کیا جائے یا درہے کہ انکم ٹیکس کی خاتون افسر رعنا احمد نے ترقی نہ ملنے پر عدالت سے رجوع کر رکھا ہے، سلیکشن بورڈ نے انہیں فہرست میں دوسرے نمبر پر ہونے کے باوجود نظر انداز کر کے 10ویں نمبر کے چوہدری صفدر اور 16 ویں نمبر کے ڈاکٹر ارشاد کو ترقی دی تھی جبکہ چوہدری صفدر کیخلاف مختلف انکوائری بھی چل رہی ہیں جبکہ درخواست گزار رعنا احمد کی رپورٹ بھی اے سی آر رپورٹ بھی اچھی تھی