مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے ،ْکم از کم 90 دن میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ضرور ہونا چاہیے ،ْاراکین سینیٹ

وفاقی کابینہ نے مشترکہ مفادات کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دیدی ،ْمستقل سیکرٹریٹ جلد بن جائے گا ،ْ ریا ض حسین پیرزادہ مشترکہ مفادات کونسل کا درجہ وفاقی کابینہ سے کسی طور بھی کم نہیں‘ چیئر مین سینیٹ

جمعرات 9 مارچ 2017 23:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 09 مارچ2017ء) اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے ،ْکم از کم 90 دن میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ضرور ہونا چاہیے‘ مشترکہ مفادات کو نظرانداز کرنے سے وفاق کمزور ہوگا جبکہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے مشترکہ مفادات کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ بنانے کی منظوری دیدی ہے‘ مستقل سیکرٹریٹ جلد بن جائے گا۔

جمعرات کو وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسین پیرزادہ نے تحریک پیش کی کہ 2015-16ء کے لئے مشترکہ مفادات کونسل کی سالانہ رپورٹ کو سینٹ میں زیر بحث لایا جائے۔

(جاری ہے)

سینیٹر اعظم سواتی نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ 18ویں ترمیم کے بعد مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنایا گیا ہے تاہم پچھلے دو سال میں اس کے صرف تین اجلاس ہوئے ہیں۔ ہم امید کرتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل صوبوں کی بنیادی ضروریات کے حوالے سے معاملات کو حل کرنے میں بھرپور کردار ادا کریگی اور اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کی نگرانی کا فریضہ بھی انجام دے گی۔

سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہا کہ آئین کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کا ایک مستقل سیکرٹریٹ ہونا چاہیے اور اس کا 90 دن میں اجلاس ضروری ہے جبکہ کونسل کے باقاعدہ سیکرٹری کا تقرر کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کو ایڈہاک ازم پر نہ چلایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں جو بھی فیصلے ہوتے ہیں ان پر عملدرآمد کے لئے باقاعدہ مدت کا تعین کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کے معاملات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان پر مشترکہ مفادات کونسل کو زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنانے کی ضرورت ہے۔ کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ قائم کرنا ضروری ہے۔ کونسل میں آنے والے معاملات کے حوالے سے ہر صوبے کا ایک ونگ ہونا چاہیے۔ مشترکہ مفادات کونسل کو نظر انداز کرنے سے وفاق کمزور ہوگا۔

کم از کم 90 دن میں مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس ضرور ہونا چاہیے۔سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے بعد مشترکہ مفادات کونسل اہم ادارہ ہے‘ اختیارات کی منتقلی‘ نیٹ ہائیڈل منافع اور حکومت کی طرف سے لئے جانے والے قرضوں کے معاملات مشترکہ مفادات کونسل کے ایجنڈے کا حصہ ہونے چاہئیں۔ وزراء اعلیٰ کو اپنے صوبوں کے مفادات کا خیال رکھنا چاہیے۔

سینیٹر عبدالقیوم نے کہا کہ پاکستان کے اہم مفادات میں سیکیورٹی ‘ سماجی و اقتصادی ترقی‘ قومی یگانگت اور یکجہتی جیسے اہم معاملات شامل ہیں۔ 18ویں ترمیم میں مشترکہ مفادات کونسل کے تنظیمی ڈھانچے کو بہت بہتر بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا فورم موجود ہے اس کے باقاعدگی سے اجلاس ہونا ضروری ہیں لیکن پارلیمنٹ کے ذریعے زیادہ معاملات کو حل کیا جانا چاہیے اور زیادہ اہمیت پارلیمنٹ کو دینی چاہیے۔

ان کے ذریعے قوانین بنائے جانے چاہئیں۔ چیئرمین نے کہا کہ 1956ء میں بین الصوبائی کونسل اور اب مشترکہ مفادات کونسل میں بہت فرق ہے۔بحث سمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ میاں ریاض حسن پیرزادہ نے کہا کہ سینٹ وفاق کی نمائندگی کرتا ہے‘ مشترکہ مفادات کونسل کی پچھلی رپورٹ میں کچھ خامیاں تھیں جو اس رپورٹ میں نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ارکان نے بہترین تجاویز دی ہیں‘ کونسل کے دو اجلاس ہوئے ہیں۔

صوبوں کو بار بار تحریر کیا گیا لیکن ان کی طرف سے ایجنڈے کے لئے معاملات نہیں بھیجے گئے جس کی وجہ سے اجلاس میں تاخیر ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ اب تک جتنے بھی اجلاس ہوئے ان کو سندھ اور خیبر پختونخوا کے وزراء اعلیٰ نے کھلے دل سے تسلیم کیا جوکہ خوش آئند ہے۔ انہوں نے کہا کہ سینٹ کو یقین دلاتا ہوں دسمبر میں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ بنانے کی سمری کی منظوری دیدی گئی ہے۔

ایک سمری وزیراعظم کو بھجوائی گئی جیسے ہی اس کی منظوری دے دی گئی مشترکہ مفادات کونسل کا مستقل سیکرٹریٹ قائم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے حوالے سے مختلف ونگز کے قیام کے لئے دی جانے والی تجاویز کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ گیس‘ تیل‘ ہائیڈل پرافٹ کے معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں ہی حل ہوئے ہیں۔

وزارت پٹرولیم اور وزارت پانی و بجلی نے بھی اس حوالے سے تعاون کیا اور خواجہ آصف نے بھی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کیا۔ مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنانے اور اس کے نظم و نسق کی بہتری کے لئے اقدامات کئے جانے چاہئیں۔اجلاس کے دوران چیئرمین سینٹ نے کہا کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کو فعال بنایا گیا جس کے مطابق اس کا درجہ وفاقی کابینہ سے کسی طور بھی کم نہیں۔

نئی حکومت کے قیام کے بعد اگر کابینہ کی تشکیل پندرہ دن لگتے ہیں تو پھر مشترکہ مفادات کونسل کی تشکیل میں 30 دن سے زیادہ نہیں لگنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ پہلے متعلقہ وزیر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کی صدارت کرتے تھے لیکن 18ویں ترمیم میں لازم کر دیا گیا ہے کہ وزیراعظم مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کی صدارت کریں۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔

کونسل کے اجلاس کا ایجنڈا صوبوں نے نہیں بلکہ وفاق نے تیار کرنا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معدنیات ‘ تیل و گیس‘ صنعتی ترقی‘ بجلی‘ بڑی بندرگاہوں کا انتظام‘ ریگولیٹری اتھارٹیاں‘ قومی منصوبہ بندی اور مردم شماری جیسے معاملات بھی فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ کا حصہ ہیں۔انہوں نے کہا کہ سینٹ کی اختیارات کی منتقلی سے متعلق فنکشنل کمیٹی نے بھی سفارش کی ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کا آزادانہ سیکرٹریٹ ہونا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر کے مسئلے کا حل نہیں نکلتا گلگت بلتستان کے معاملات کو مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں لایا جاسکتا ورنہ اس سے ہمارا بین الاقوامی سطح پر موقف کمزور ہوگا۔

متعلقہ عنوان :