پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں- ملک میں پانی کی سپلائی کرنے والے 72 فیصد منصوبے فعال ہیں اور ان میں سے 84 فیصد منصوبوں سے فراہم ہونے والا پانے پینے کے قابل نہیں۔وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 8 مارچ 2017 12:38

پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں- ملک میں ..
ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 مارچ۔2017ء) پاکستان کی 84 فیصد آبادی کو پینے کے صاف پانی تک رسائی حاصل نہیں یہ انکشاف سینیٹ میں پیش کردہ ایک رپورٹ کے مطابق تحقیقاتی کونسل برائے آبی وسائل پاکستان کی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کا کہنا ہے کہ ملک میں پانی کی سپلائی کرنے والے 72 فیصد منصوبے فعال ہیں اور ان میں سے 84 فیصد منصوبوں سے فراہم ہونے والا پانے پینے کے قابل نہیں۔

وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے مطابق سندھ اور پنجاب کو 14 فیصد پانی کی سپلائی میں آرسینک (سنکھیا) کی بھاری مقدار سامنے آئی جو اس کی مقررہ حد سے کہیں زیادہ تھی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ گذشتہ 4 سال کے دوران پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے منصوبوں پر 279 ارب روپے خرچ کیے جاچکے ہیں۔

(جاری ہے)

خیال رہے کہ اس منصوبے کے تحت آبی وسائل کونسل کی جانب سے پانی کی جانچ کے لیے 6 مقامی لیبارٹریاں کو اپ گریڈ کیا گیا ہے جبکہ ضلعی سطح پر 17 نئی لیبارٹریاں قائم کی گئی ہیں جو پانی کی کوالٹی پر نظر رکھتی ہیں۔

رانا تنویر حسین کے مطابق پانی کی سپلائی کرنے والی ایجنسیوں سے وابستہ 3 ہزار پیشہ ورانہ افراد کی تربیت کے لیے بھی فنڈز استعمال کیے جارہے ہیں۔ ماہرین آبی وسائل کے مطابق پاکستان کے پالیسی سازوں میں متوقع پانی کی قلت سے متعلق آگاہی نہ ہونے کے سبب ملکی سیکورٹی، استحکام اور ماحولیاتی پائیداری خطرے کا شکار ہے۔ واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کے مطابق پاکستان میں پانی سے متعلق پالیسی موجود نہیں اور اہم پالیسی ساز پاکستان کے آبی وسائل کے غائبانہ جاگیردار بنے ہوئے ہیں، اس غائبانہ جاگیرداری نظام کے باعث پانی ان افراد کی جاگیر بن کر رہ گیا ہے جبکہ غریب اپنا حصہ حاصل کرنے سے محروم ہیں۔

سابق چیئرمین واپڈا کا کہنا تھا کہ وزارتِ پانی و بجلی کی خواہش پر آبی وسائل کی ایک رپورٹ تیار کی گئی تھی تاہم بدقسمتی سے وفاقی کابینہ اس کا جائزہ لینے اور اسے منظور کرنے کے لیے وقت نہیں نکال سکی۔ شمس الملک کے مطابق جاگیردارانہ نظام کی بدترین مثال سندھ میں دیکھنے کو ملتی ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں پختون برادری کہیں زیادہ مساواتِ انسانی پر یقین رکھتی ہے، عمومی طور پر جاگیردار نہیں چاہتے کہ غریب افراد معاشی طور پر مستحکم ہوسکیں لہذا پانی کا مسئلہ سیاسی رنگ اختیار کرچکا ہے۔

مختلف موسموں میں دریاو¿ں کے بہاو¿ میں ہونے والی تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گرمیوں میں 84 فیصد تک رہنے والا پانی کا بہاو¿ سردیوں میں صرف 16 فیصد ہوجاتا ہے جو کہ ایک اہم مسئلہ ہے۔رپورٹ کے مطابق، ربیع اور خریف فصلوں کے اعتبار سے موسم گرما میں پانی کی ضرورت 66 فیصد جبکہ موسم سرما میں 34 فیصد تک ہوتی ہے یوں گرمیوں میں 18 فیصد تک پانی زیادہ موجود ہوتا ہے مگر سردیوں میں 18 فیصد پانی کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شمس الملک کے مطابق گرمیوں میں پانی کی اضافی مقدار سیلابوں کی وجہ بنتی ہے جس کے نتیجے میں سندھ کے میدانوں میں انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے اور موسم سرما میں پانی کی قلت ربیع کی فصل کی پیداوار کو متاثر کرتی ہے، مضبوط حکومت نہ ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ یوں ہی جاری ہے جو کہ پاکستان کی معیشت کے لیے نقصان کا باعث ہے۔وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کے فیڈرل واٹر منیجمنٹ سیل کے ڈائریکٹر جنرل محمد طاہر انور کا کہنا ہے کہ مجموعی پالیسی کے ڈھانچے میں 18 ملین ایکڑ فٹ کے برابر بارش کے پانی اور پہاڑوں سے آنے والے پانی کو نظرانداز کیا گیا۔

طاہر انور کے خیال میں اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ دریاوں، زیرزمین پانی، بارش کے پانی اور پہاڑوں سے آنے والے پانی کو ذہن میں رکھتے ہوئے پالیسی فریم ورک تشکیل دیا جائے تاکہ کم ہوتے پانی کے وسائل کا درست استعمال ممکن ہو سکے۔پاکستان میں آبی وسائل کے تحقیقاتی ادارے کے چیئرمین ڈاکٹر محمد اشرف کا کہنا تھا کہ تمام اشارے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان پانی کی قلت کا شکار ملک بنتا جارہا ہے تاہم اسٹیک ہولڈرز اور بالخصوص پالیسی سازوں میں اس بڑھتے ہوئے خطرے کی آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے اور وہ سماجی اور معاشی شعبوں میں اس کے متوقع بدترین اثرات دیکھنے سے بھی قاصر ہیں۔

ڈاکٹر محمد اشرف کے مطابق پانی کی قومی پالیسی کے ڈرافٹ کو منظور ہونا چاہیئے جو آبی وسائل کو محفوظ بنانے کے حوالے سے بہترین رہنمائی کرسکتا ہے۔دوسری جانب ملک میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور موسمی تبدیلی ہر سال صحرا میں کئی ایکڑ رقبے کے اضافے کا باعث بن رہی ہے جبکہ زیر زمین پانی کی سطح میں بھی بتدیج کمی واقع ہورہی ہے۔ صحرا میں اضافے سے مراد زرخیز زمین کا بنجر ہوجانا ہے اور ایسا قحط سالی، جنگلات کی کٹائی اور زراعت کے نامناسب طرز عمل اپنانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

چکوال، خوشاب، بکھر، لکی مروت، ڈی آئی خان، تھرپارکر، سانگھڑ، عمر کورٹ، پشین، قلعہ عبداللہ، لسبیلہ اور دیگر علاقوں میں صورتحال انتہائی پریشان کن ہے-ان علاقوں میں پینے کا صاف پانی موجود نہیں اور زیر زمین پانی کی سطح 1000 فٹ سے بھی کم ہو چکی ہے، بورنگ کی وجہ سے پانی کی سطح مزید کم ہورہی ہے اور ایک موقع آتا ہے کہ بورنگ بھی کام نہیں کرتی جبکہ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی ایک سنگین مسلہ ہے‘حکومتوں کی جانب سے پالیسی سازی کے فقدان کی وجہ سے صرف صوبہ پنجاب میں لاکھوں ایکٹرآباد زرعی رقبہ پر رہائشی کالونیاں بنانے سے زراعت اور آبپاشی کے نظام کو شدید نقصان پہنچا ہے -ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے تین سالوں میں لاہور شہر کو پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے کیونکہ شہرمیں زیرزمین پانی کی سطح دن بدن نیچے جارہی ہے-

متعلقہ عنوان :