ْ سپریم کورٹ، کراچی رجسٹری میں منچھر جیل اور پانی میں آلودگی پر از خود نوٹس کیس کی سماعت

واٹر کمیشن نے سپریم کورٹ رجسٹری میں رپورٹ جمع کرا دی، رپورٹ میں دل دہلا دینے والے حقائق بے نقاب سپریم کورٹ کا ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ کو فوری ہٹانے کاحکم،کیڈرآفسرکو کراچی واٹربورڈ کا ایم ڈی تعینات کیاجائے، سپریم کورٹ شرم کی بات ہے نیوکلیئر پاور ہیں اور آلودہ پانی صاف کرنے کا حل نہیں نکال سکتے، جسٹس قاضی فائز عیسی کے دوران سماعت ریمارکس کراچی اور لاڑکانہ میں80 فیصد، شکارپور 88، سکھر 82 اور حیدرآباد میں 85 فیصد پانی قابل استعمال نہیں، سندھ کے لوگ منچھر جھیل کا زہریلا پانی پی کر مر رہے ہیں، جسٹس امیرمسلم ہانی

پیر 6 مارچ 2017 16:09

ْ سپریم کورٹ، کراچی رجسٹری میں منچھر جیل اور پانی میں آلودگی پر از خود ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 06 مارچ2017ء) سپریم کورٹ نے ایم ڈی کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ مصباح الدین فرید کو فی الفور عہدے سے ہٹانے کا حکم دیتے ہوئے چیف سیکرٹری کو ہدایت کی ہے کہ ایم ڈی واٹر بورڈ کیڈر پوسٹ ہے، کسی کیڈر آفیسر کو ایم ڈی کراچی واٹر بورڈ تعینات کیاجائے۔دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ شرم کی بات ہے نیوکلیئر پاور ہیں اور آلودہ پانی صاف کرنے کا حل نہیں نکال سکتے۔

جسٹس امیرہانی مسلم نے کہاکہ سندھ کے لوگ منچھر جھیل کا زہریلا پانی پی کر مر رہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پیرکو سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں آلودہ پانی پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔ واٹر کمیشن نے سپریم کورٹ رجسٹری میں رپورٹ جمع کرا دی۔ سپریم کورٹ رجسٹری میں پیش کردہ واٹر کمیشن رپورٹ میں دل دہلا دینے والے حقائق بے نقاب ہوئے۔

(جاری ہے)

رپورٹ میں کراچی، حیدرآباد، کوٹری، بدین، ٹھٹھہ، لاڑکانہ، شکارپور، سکھر، جیکب آباد اور عمرکوٹ میں85 فیصد آبادی کو گندا اور مضر صحت پانی پلانے کا انکشاف کیا گیا جس کے باعث لوگوں کی اکثریت وبائی امراض کا شکار ہے، کاشت کاری میں بھی گندا پانی استعمال کیا جارہا ہے۔

کمیشن رپورٹ کے مطابق کراچی اور لاڑکانہ 80 فیصد، شکارپور 88، سکھر 82 اور حیدرآباد میں 85 فیصد پانی قابل استعمال نہیں۔ رائس، دیہہ گاڑی، ایری گیشن اور انڈس کینال میں گندا اور فضلے والا پانی شامل کیا جارہا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد میں سیوریج جبکہ جیکب آباد اور ٹھٹھہ میں واٹر فلانٹس موجود ہی نہیں۔ کوٹری، بدین، مٹھی، عمرکوٹ اور میرپور خاص میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس ناکارہ ہوگئے ہیں۔

واٹر کمیشن رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ کراچی میں سیوریج اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ پر سالانہ کروڑوں روپے لگائے جاتے ہیں لیکن پپری، منگھوپیر اور سی اوڈی کے مقام پر نصب کردہ آراو پلانٹس فعال ہی نہیں۔ محمودآباد میں واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی سو ایکڑ اراضی پر قبضہ اور غیرقانونی لیز دی گئی ہے۔ شہر کا گندا پانی سمندر میں چھوڑنے سے آبی حیات، مینگروز اور دیگر کو خطرات لاحق ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ آر او پلانٹس کی تنصیب میں اربوں روپے کا فراڈ کیا گیا، صوبے بھر میں700 سے زائد پلانٹس کی تنصیب کی گئی اور پلانٹس کی تنصیب کے بعد ان کے معیار اور کارکردگی کا تجزیہ کیے بغیر اربوں روپے کی ادائیگیاں کی گئیں۔ لاڑکانہ کی 70 لاکھ آبادی ہے، رائس کینال میں 18 مقامات پر گندا پانی ڈالا جاتا ہے جب کہ گندا پانی لاڑکانہ سے جوہی تک کاشتکاری اور پینے کے لیے استعمال ہوتا ہے، لاڑکانہ کا 88 فیصد جب کہ شکارپور کا 79 فیصد زیر زمین پانی پینے کے قابل نہیں ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کوٹری میں نصب کیا جانے والا ٹریٹمنٹ پلانٹ بند ہوچکا، کوٹری کا گندا پانی کے بی فیڈر میں ڈالا جاتا ہے اور یہی پانی کراچی کو فراہم کیا جاتا ہے، ٹھٹھہ میں بھی سیوریج نظام اور ٹریٹمنٹ پلانٹ موجود نہیں جب کہ کراچی میں 84 مقامات سے پانی کے نمونے حاصل کیے گئے جن میں سے 80 فیصد پانی پینے کے قابل نہیں، پانی میں موجود بکٹیریا اور ڈی ایس کی وجہ سے پیٹ کے امراض پھیل رہے ہیں اس کے علاوہ شہر کا گندا پانی سمندر میں چھوڑنے سے آبی حیات، مینگروز اور دیگر کو خطرات لاحق ہیں۔

ناکارہ آر او پلانٹس کی تنصیب پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا اور چیف سیکریٹری سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کہ آر او پلانٹس کی دیکھ بھال کس کی ذمہ داری تھی، آر او پلانٹس کی تنصیب کس کا کام ہے اور کرکوئی اور رہا ہے، اربوں روپے خرچ کررہے ہیں لہذا اب اس ظلم کی سزا کس کو دینی چاہیے۔جسٹس امیر ہانی مسلم نے ریمارکس دیئے کہ ایک آدمی کی زندگی بچانے کے لیے سو آدمیوں کے خلاف مقدمہ درج کرائیں گے، اگر ایک شخص کی زندگی کو بھی بچانے کے لئے ہمیں کسی کے خلاف قانونی کارروائی کرنا پڑی تو ضرور کریں گے۔

سپریم کورٹ نے ایم ڈی واٹربورڈ مصباح الدین فرید کو فوری طور پر عہدے سے ہٹانیکا حکم جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے چیف سیکرٹری کو حکم دیتے ہوئے کہا کہ ایم ڈی واٹر بورڈ کیڈر پوسٹ ہے اس لئے اس عہدے پر کیڈر افسر ہی تعینات کیا جائے۔سماعت کے دوران ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے مہلت کی استدعا کی گئی جس پر جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک شرط پر مزید وقت دیں گے کہ تمام سیکریٹری نلکے کا پانی پئیں۔