سندہ کے اسکولوں میں سندھی نہ پڑھانا سندھی زبان کے خلاف سازش ہے

سندھ کے ادیبوں اور دانشوروں کا سانگھڑ ثقافتی اور تہذیبی کانفرنس 2017ء کے موقع پر خطاب

اتوار 5 مارچ 2017 23:00

ٹنڈوآدم - (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 05 مارچ2017ء) سندہ کے ادیبوں اور دانشوروں نے برہمن آباد اور اپنے قدیمی مقامات، ثقافت اور سندہی زبان کو درپیش خطرات سے نمٹنے اور اس کی بقا کے لیے آگے آنے، دہشتگردی اور انتہاپسندی کے خلاف لڑنے، صوفی ازم اور امن، محبت کی فضا کے فروغ اور سندہ واسیوں کو ہونے والی آدم شماری میں بھرپور انداز میں حصہ لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ سندہ کے اسکولوں میں سندھی نہ پڑھانا سندھی زبان کے خلاف سازش ہے جس کو کسی بھی صورت میں کامیاب ہونے نہیں دیا جائے گا۔

یہ اظہار انہوں نے اتوار کو مہران ہسٹاریکل کلچرل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی ٹنڈوآدم کی جانب سے منعقدہ سانگھڑ ثقافتی اور تہذیبی کانفرنس 2017ء کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

کانفرنس کا افتتاح نامور ادیبوں سلیم لطیفی بھٹو، آپا نظیر ناز اور نور احمد جنجھی نے کیا جبکہ اس موقع پر نسرین الطاف، پروفیسر حنیف لغاری، ذوالفقار روشن، انور علی خان مری، حبیب خان مری، وفا رضا چانڈیو، یامین خاصخیلی، عاشق حسین ساند، ریاض سنجرانی ودیگر بھی موجود تھے۔

کانفرنس سے صدارتی خطاب کرتے ہوئے نامور ادیبوں، مصنفوں، دانشوروں اور لطیف شناس سلیم لطیفی بھٹو نے کہا کہ لطیف سرکار کے مطابق کسی بھی قوم کی پہچان مذہب نہیں بلکہ ثقافت سے ہوتے ہے، کسی بھی قوم کی سوچ اور تہذیب ثقافت کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے اسکولوں میں انگریزی تو پڑھائی جا رہی ہے لیکن اپنی مادری بولی سندھی کو پڑھانا ختم کیا جا رہا ہے جو ایک بڑی سازش ہے جس کے خلاف ہمیں آواز بلند کرنی ہوگی اور ہماری نسل نے اپنی سندھی بولی کی بقا کے لیے کام نہیں کیا تو وہ ختم ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آدم شماری ہماری بقا ہے جس میں ہمیں بھرپور انداز میں حصہ لینا ہے۔اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے تاریخ دان، ادیب، دانشور اور مصنف نور احمد جنجھی نے کہا کہ انقلاب اور تبدیلی کے لیے کثیر تعداد نہیں بلکہ اچھی سوچ اور ہمت ہونے چاہیے،انہوں نے کہا کہ ہماری باتوں پر 10 باشعور افراد نے بھی عمل کیا تو وہ ہماری کامیابی ہے۔اس موقع پر باتیں کرتے ہوئے آپا نظیر ناز نے کہا کہ آج بھی سندہ میں ہماری خواتین کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جو ان کا حق بنتا ہے، اپنی قوم سوئی ہوئی ہے جس کو جگانا ہوگا اور ہمیں جدید دور کے مطابق اپنی خواتین کو حق اور انہیں انکا مطلوبہ مقام دینا ہوگا۔

اس موقع پر الطاف اثیم ‘ نسرین الطاف‘ رئیس حبیب خان مری، انور علی مری، ذوالفقار روشن اور حنیف لغاری سمیت دیگران نے بھی خطاب کیا۔کانفرنس میں پسماندہ ضلع سانگھڑ سمیت سندہ کی ثقافت اور تہذیب پر بات چیت کی گئی۔کانفرنس میں آثار قدیمہ، انتہاپسندی اور سندہ کے صوفی ازم، آدم شماری، سندہ کی ثقافت میں خواتین کے کردار، شاہ لطیف کے ابائی ورثے سمیت مختلف موضوعات پر سیشن منعقد کیے گئے۔

کانفرنس میں فن کی دنیا پر پوری زندگی نچھاور کرنے والے امر کرداروں مرحوم خادم حسین "راجا" خاصخیلی اور مرحوم انور بہن سمیت نامور ادیبوں، تعلیم دانوں اور مصنفوں مرحوم ڈاکٹر پروفیسر عزیز انصاری اور مرحوم سید جیئل شاہ کو خراج بھی پیش کی گئی جبکہ سانحہ سیوہن میں شہید ہونے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی۔