پاکستان 186 بلین ٹن مالیت کے محفوظ ذخائر کا مالک

176 بلین ٹن صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائرموجود، 2020 تک پاکستان کی کل انرجی مکس میں کوئلے کا حصہ 15 فیصد ہو جائے گا

اتوار 5 مارچ 2017 15:01

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 05 مارچ2017ء) سندھ اینگرو کول مائنگ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر شمس الدین اے نے کہا ہے کہ پاکستان 186 بلین ٹن مالیت کے محفوظ ذخائر کا مالک ہے ۔ جس میں سے جیالوجیکل سروسز کے ذریعے 176 بلین ٹن صحرائے تھر میں کوئلے کے ذخائر پائے گئے ہیں ۔ صحرائے تھر دنیا کے ساتویں سب سے بڑے کوئلے ذخائر پر مشتمل ہے ۔

حکومت پاکستان نے تھر پراجیکٹ کو سی پیک کا حصہ بنایا ہے اور بجلی کی پیداوار کے لئے مقامی ایندھن کے استعمال کے لئے حمایتی حکومتی پالیسیوں کی ایک رینج متعارف کرائی ہے ۔انہوں نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ مغرب کا کاربن فٹ پرنٹ چین اور بھارت سے زیادہ خراب ہے کیونکہ تاریخی طور پر اخراج موسمیتی تبدیلی کی بڑی وجہ رہی ہے ۔ ورلڈ ریسورس انسٹیٹوٹ سے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے امریکہ کے اخراج سے سب سے بلند سطح 1850 اور 2007 کے مابین 28.8 فیصد رہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں چین نے صرف 9 فیصد اخراج کیا ہے ۔

(جاری ہے)

ترقیاتی ممالک کوئلے کے محدود کے استعمال پر اس کو ماحولیاتی اثرات کے بعد ایک قانون سازی متعارف کرا رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ چین ایک برآمدی متحرک معیشت ہے ۔ جسے عالمی مارکیٹ میں مسابقتی قیمتوں پر اپنی اشیاء دینی ہے ۔ اسے حاصل کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ صنعتی شعبوں کو بجلی کے قابل اعتماد اور سستے ماخذ تک رسائی مل جائے یہاں پر کوئلے کی تصویر سامنے آتی ہے چین کے پاس کوئلے کے سب سے قابل برداشت ذریعہ توانائی سے بجلی کو پیداوار دینے کے لئے اپنی متعلقہ ایندھن وافر مقدار میں موجود ہے ۔

انہوں نے کہا کہ ممالک ممالک کی حکومتیں کوئلے کی کان کنی اٹھائے جانے والے خدشات کے حل کے خواہاں ہیں ۔اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی اور اثرات کو کم سے کم رکھنے کے لئے سخت قواعد و ضوابط لاگو کر رہی ہیں ۔حکومتوں کی یہ کوشش ہے کہ موجودہ کانوں کو بند کرنے کی انشورنس کو یقینی بنایا جائے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی موجودہ توانائی ضروریات کے لئے تھرمل انرجی پر بہت انحصار کرتا ہے تاہم کچھ عرصہ سے پاکستان میں اب متبادل ذرائع پر توجہ مبذٰول ہے ۔

جسے اب پاکستان درآمدی ایندھن پر بھی انحصار کر رہا ہے لیکن یہ ایندھن ملکی خزانے پر ایک بوجھ ہے ۔جس کا سدباب بھی ضروری ہے ۔2015 تک پاکستان میں انرجی مکس کچھ اس طرح سے ہیں ۔ پاکستان کی کل پیداوار کا 67.3 فیصد پن بجلی کے منصوبوں سے حاصل کیا جاتا ہے ۔ جب تھرل کوئلے کی صنعت پیداوار شروع کر دی گئی تو پھر پاکستان کی درآمدی بل پر بڑی حد کمی متوقع ہے ۔

انہوں نے کہا کہ 2015 کے اعداد و شمار کے تنازعہ میں پاکستان میں کوئلے کو توانائی پیدا کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا ۔تاہم مستقبل اندوزوں کے مطابق 2020 تک پاکستان کی کل انرجی مکس میں کوئلے کا حصہ 15 فیصد ہو جائے گا ۔ 7.6 ایم ٹی بی اے کی کان کو زیر استعمال لاتے ہوئے دسمبر 2019 تک تھر کوئلے کی قیمت درآمدی کوئلے کے متوازی ہو جائے گی ۔شمس الدین اے نے کہا کہ سی پیک کے تحت مستقبل میں کئی منصوبوں کا پاکستان میں آغاز متوقع ہے ۔

660 میگاواٹ صلاحیت کی حامل دو منصوبوں کو پورٹ قاسم پر پائے تکمیل کی جانب گامزن ہے ۔ اتنی صلاحیت کے دو مزید درآمدی پلانٹس کو ساہیوال میں لگایا جا رہا ہے ۔ اینگرو پاور جن تھر لمٹیڈ تھر بلاک ٹو میں دو عدد پاور پلانٹس لگا رہی ہے جبکہ تھر کے بلاک ون اور بلاک چار کی فیزیلبٹی رپورٹ تیار کی جا چکی ہے ۔پاکستان کے چوٹی کے انڈسٹریل اداروں اور چینی سرمایہ کاروں نے تھر کوئلے کے منصوبہ میں گہری دلچسپی ظاہر کی ہے۔

تھر اور حب کو 330 میگاواٹ کے توانائی کے منصوبوں کے لئے پہلے ہی پی پی آئی بی سے ایل او آئی حاصل کر چکی ہے ۔ یہ پلانٹ دسمبر 2019 تک کوڈ حاصل کر لیں گے ۔ اس کے علاوہ ایس ای سی ایم سی بلاک ٹو میں جاری اپنے آپریشن کو مزید بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔ اگلے چھ سالوں میں کمپنی 3300 میگاواٹ پیداواری صلاحیت حاصل کرنے کی منصوبہ بندی رکھتی ہے ۔ (جاوید/طارق ورک)

متعلقہ عنوان :