ڈاکٹر عافیہ کو جو 86 سال کی سزادی گئی اس عدالتی ٹرائل میں جیوری اور جج کی فائنڈنگ مناسب نہیں تھی‘ ایسے اہم مقدمات کے فیصلے ساری دنیا میں سرکولیٹ ہوتے ہیں‘ڈاکٹر عافیہ پر جو الزام عائد کیاگیا وہ واقعہ افغانستان میں پیش آیا تھا‘ قانونی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں جرم سرزد ہو مقدمہ بھی اسی ملک کی سرزمین پر چلتا ہے‘ افغانستان میں سرزد جرم کا ٹرائل امریکہ میں کیسے ہوا اگر قانون کی پاسداری کی جاتی تو عافیہ کو کورٹ مارشل افغانستان میں ہوسکتا تھا‘امریکہ میں اس مقدمہ کو چلانے کا کوئی استحقاق نہیں تھا

عام لوگ اتحاد پارٹی کے صدر جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمد کا پریس کانفرنس سے خطاب

ہفتہ 4 مارچ 2017 19:44

کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 04 مارچ2017ء) عام لوگ اتحاد پارٹی کے صدر جسٹس(ر) وجیہہ الدین احمدنے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جو 86 سال کی سزادی گئی ہے اس عدالتی ٹرائل میں جیوری اور جج کی فائنڈنگ مناسب نہیں تھی۔ ایسے اہم مقدمات کے فیصلے ساری دنیا میں سرکولیٹ ہوتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ پر جو الزام عائد کیاگیا وہ واقعہ افغانستان میں پیش آیا تھا۔

قانونی اصول یہ ہے کہ جس ملک میں جرم سرزد ہو مقدمہ بھی اسی ملک کی سرزمین پر چلتا ہے۔ افغانستان میں سرزد جرم کا ٹرائل امریکہ میں کیسے ہوا اگر قانون کی پاسداری کی جاتی تو عافیہ کو کورٹ مارشل افغانستان میں ہوسکتا تھا۔ امریکہ میں اس مقدمہ کو چلانے کا کوئی استحقاق نہیں تھا۔ عافیہ جیسی جسمانی ساخت اور قوت رکھنے والی خاتون وہ گن نہیں اٹھاسکتی تھی جس کا اس پر الزام عائد کیا گیا۔

(جاری ہے)

اگر اس نے گن اٹھابھی لی تو کسی کا بھی بال تک بیکا نہیںہواپھر بھی 86 سال کی سزا دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بات کی جاتی ہے ویسٹرن جسٹس کی ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 86 سال کی سزا کس بات کی دی گئی ہی ایسا اس لئے کیا گیا کہ یہ سزا موت کی سزا کے برابر ہوجائے اور کیوں مجھے یوں لگتا ہے کہ جو کچھ بھی عافیہ پر گذری وہ ان کے خفیہ منصوبے، ہتھیار اور طریقہ واردات کو بے نقاب کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

اس لئے ایسی سزا دو جو یہ سب کچھ بے نقاب نہ ہوسکے۔ میں نے بھی امریکی حکومت کو خط لکھا کہ عافیہ کے معاملے میں رحم کی ضرورت ہے۔ہر قیدی کو ملاقات اور بات کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن عافیہ کو ملاقات کا موقع نہیں دیتے اور بات نہیں کرائی جاتی، صرف ایک عورت کو پیٹھ کی جانب سے دکھادیا جاتا ہے کہ یہ عافیہ ہے۔ تمام حقائق اجاگر کئے جائیںاور خاص طور پر ڈیموکریٹ پر حقائق اجاگر کئے جائیںکہ یہ معاملہ اوبامہ دور میں نہیں ہوا تھا۔

امریکیوں پر واضح کیا جائے کہ ریپبلکن اس طرح کے ہیںاور موجودہ امریکی صدر کے کردار کی عکاسی کرتے ہیں۔ جسٹس وجیہہ الدین احمدنے کہا کہ حکومت اوراپوزیشن نے کچھ نہیں کرنا ہے، یہ 10 ریمنڈ ڈیوس بھی رہا کردیں گے۔ عافیہ کی وطن واپسی کیلئے عوام اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو مل کرقانونی اور جائز طریقہ سے جدوجہد کرنا ہوگی کہ ہمارے پاس اسرائیل کی طرح پاور نہیں کہ بزورقوت منواسکیں۔

ڈاکٹر عافیہ کی ہمشیرہ اور عافیہ موومنٹ کی رہنما ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے کہ دنیا پر واضح ہوگیا ہے کہ عافیہ بے قصور ہے اور اصل مجرموں کا بھی معلوم ہے مگر انصاف کے نام پر ظلم کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔وہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے لئے جاری مہم کے سلسلے میں نائب امیرجماعت اسلامی اسداللہ بھٹو، عام لوگ اتحاد پارٹی کے صدر جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد، پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور، برطانیہ سے آئے ہوئے معروف قانون دان بیرسٹر نسیم احمد باجوہ و دیگر کے ہمراہ کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس سے خطاب کررہی تھیں۔

ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ میری حکومت سے اپیل ہے کہ عافیہ کو وطن واپس لائیں۔ ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ وہ سخت علیل ہے، اس پر دماغی تجربات کئے جارہے ہیںاور اس دماغ ما?ف کیا جارہا ہے اور ہماری حکومت کو یہ سب کچھ معلوم ہے تو پھر بھی خاموش کیوں ہی میرے ساتھ دو بڑے قانون دان بیٹھے ہیں جوواضح طور پر آپ کوبتا سکتے ہیں کہ مسئلہ کا حل کیسے ہوگا۔ نائب امیر جماعت اسلامی اسداللہ بھٹو نے کہا کہ امریکی اپنے دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس کو چھڑالے گئے لیکن افسوس پاکستانی حکمران بے گناہ پاکستانی شہری عافیہ کو واپس نہیں لاسکے۔

جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں سیاستدانوں کی باتیں کچھ ہوتی ہیںلیکن جب حکومت میں آتے ہیں تو یہ لوگ غلامی کا راستہ اختیار کرلیتے ہیں۔ حکمرانوں کو اپنی بہن ، بیٹیوں کی فکر نہیں ہوتی بلکہ اپنی کرسیوں اور تجوریوں کی فکر ہوتی ہے۔عافیہ بہن کی بے گناہی روز روشن کی طرح واضح ہے اسے صرف امت اور اسلام سے محبت کی سزا دی گئی ہے۔ پاکستان کی اتنی سیاسی جماعتیں ہیں۔

ووٹ لینے کے وقت ان کا موقف کچھ اور ہوتا ہے۔ الیکشن میں ووٹ لینے کیلئے تو عوام کی بات کرتے ہیںاور جیت کر ظالموں کا ساتھ دیتے ہیں۔ ہم حکمرانوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ قوم کا بچہ بچہ عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی چاہتا ہے اگر عوام کی آواز آج نہیں سنیں گے تو 2018 کے الیکشن میں عافیہ بہن کی رہائی کے وعدے کو بھلانے کی وجہ سے عوام بھی ان کو بھلا دے گی۔

اسداللہ بھٹو نے کہا کہ ہم عزم کرتے ہیںکہ جماعت اسلامی عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہوئے عافیہ بہن کی رہائی کی جدوجہد جاری رکھے گی۔ سراج الحق صاحب نے ایوانوں میں بیٹھے لوگوں سے باربار رہائی کا مطالبہ کیا اور سینیٹ میں بھی موثر آواز اٹھائی۔ ہمارے اراکین قومی اسمبلی نے اسمبلی میں بھرپور آواز اٹھائی۔ ہم عافیہ رہائی موومنٹ کے ساتھ ہیں اورانشاء اللہ ساتھ رہیں گے۔

معروف قانون دان بیریسٹر نسیم احمد باجوہ نے کہا کہ برطانیہ، امریکہ ، یورپ اور دیگر ممالک میں جو عافیہ رہائی کمیٹی ہے میں اس کی نمائندگی کررہا ہوں۔ ان سب کا یہاں آنا ممکن نہیں تھا اس لئے انہوں نے متفقہ طور پر نمائندگی کیلئے یہاں بھیجا ہے۔ عافیہ کی رہائی صرف صدیقی فیملی، کراچی، سندھ یا پاکستان کا مسئلہ نہیں یہ عالمی انسانیت کا مشترکہ مسئلہ ہے۔

میں چاہتا ہوں اس کمرے میں موجود تمام لوگ سوچیں کہ گزشتہ 14 سال میں انہوں نے کیاحاصل کیا اور اب میں چاہتا ہوں کہ آپ تصور کریں کیا وقت آپ کے لئے اس عرصہ کے دوران ٹہرگیا تھا۔اپنے گذری ہوئی زندگی کے بارے میں سوچیں اور اپنے پیاروں کے بارے میں جو اب آپ کے درمیان نہیں ہیں۔ بالکل ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی زندگی کی طرح جسے کراچی کی سڑکوں سے غائب کردیا گیا تھا ،گذشتہ 14 سال سے اس کی زندگی بے چین روح کی طرح ایک ظالم لمبو (Limbo)میں پھنس گئی ہے۔

وہ آج اس سیارے پر سب سے مظلوم عورت ہے -ایک وکیل کے طور پر میں نے ناانصافی کے بہت سے واقعات کو دیکھا ہے لیکن بالکل اس پیمانے پر کبھی بھی ایسی ناانصافی نہیں دیکھی۔اسے اپنے تین بچوں کے ہمراہ،ایک مشترکہ پاکستان / امریکی آپریشن میں کراچی کی سڑکوں سے اٹھا یا گیا ہے۔گوانتانامو سے 800 افراد میں سے اکثر کو رہا جبکہ ڈاکٹر عافیہ کیلئے اس ڈراؤنے خواب کا اس طرح کاکوئی اختتام نہیں ہے۔

یہ سلسلہ عافیہ کے لاپتہ ہونے کے ساتھ شروع ہوا اورامریکی عدالت میں پیش کرنے سے قبل دوسرے ملک افغانستان میں اسے گولی مار کر اس پر فائرنگ کا مبینہ الزام عائدکیا گیا۔نیویارک میں مقدمے کی سماعت کبھی نہیں جانی چاہئے تھی کیونکہ عافیہ کو باضابطہ طور پر امریکہ کے حوالے نہیں کیا گیا تھالہذا یہ کوئی قانونی بنیاد نہیں تھی اور غلط دائرہ اختیار میں تھی۔

مبینہ جرم کا ارتکاب امریکہ میں نہیں ہوااور ماہرین نفسیات کی طرف سے جیل کو دیئے گئے شواہد کے مطابق وہ ذہنی طور پر مقدمے کا سامنا کرنے کے لئے فٹ نہیں تھی۔اس سب کے باوجود مقدمے کی سماعت وکلاء کی ایک نام نہادجسے’’ ڈریم ٹیم‘‘ کے ساتھ کی گئی وہ لوگ جو اپنے کلائنٹ کے بارے مین 12 سال سے پوچھ رہے تھے اگر آپ سوچیں کہ قانون امریکہ میں تنگ کیا گیا تھا۔

عافیہ کی لیگل ٹیم کو دوسرا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ ان کا سامنا اس جیوری سے تھا جواس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں تھی کہ امریکی انٹیلی جنس نے عافیہ کو اغواء کیا ہے، ایک ماں اور اس کے تین بچوں پر تشدد کیا گیا ہے جس میں سے دو امریکی شہری ہیں۔برطانوی صحافی یوون رڈلی کے مطابق،جو کہ حالیہ برسوں میں کچھ یرغمالیوں کی رہائی کیلئے مذاکرات میں شامل رہی ہیںکہ اب امریکہ عافیہ کو ایک قیمتی اثاثہ یا اہم قیدیوں میںشمار نہیں کرتا ہے۔

یہ اچھی خبر ہے کہ امریکی عافیہ کی وطن واپسی کیلئے تیار ہوجائیں گے،تاہم،یہ سچ نہیں کہ ایک بھی پاکستانی سیاستدان، حکومت کے کسی وزیر یا وزیر اعظم نے گزشتہ سالوں کے دوران، سرکاری طور پر اس کی رہائی کے لئے مطالبہ کیا ہو۔یہ حیران کن ہے لیکن سچ ہے کہ قوم کی بیٹی کی آزادی میں رکاوٹ امریکہ میں نہیں یہاں پاکستان میں ہے،پاسبان پاکستان کے صدر الطاف شکور نے کہا کہ عافیہ کے معاملے میں سیاستدانوں نے بالغ نظری کا ثبوت نہیں دیا۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے معاملے میں حکومت اوراپوزیشن کا ایک پیج پر نہ ہونا افسوسناک ہے۔ اختلافات اندرونی مسائل کے حل پر ہوسکتے ہیں۔ قومی نوعیت کے ایشوز پر حکومت اور اپوزیشن کو ایک پیج پر ہوناچاہئے۔ بالخصوص جب معاملہ قومی غیرت اور وقار کا ہو۔آخر سیاسی جماعتوں کے قائدین کب سیاسی بلوغت حاصل کریں گے۔عافیہ کی واپسی کا قرض ریاست پر واجب الاد ا ہے اس لئے اس معاملے میں سب کا ایک پیج پر آنا ضروری ہے۔

قوم کی بیٹی پر ہمیشہ کی طرح اب ڈالرز کو ترجیح نہیں دی جائے۔ڈاکٹر عافیہ کو مارچ کے مہینے میںاغواء کیا گیا تھا اسی ماہ میں اسے واپس لایا جائے۔ کیا اپوزیشن کی عافیہ کی واپسی کے معاملے میں اس لئے دلچسپی نہیں کہ اس کا فائدہ حکومت کو پہنچے گا ۔سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ آئندہ انتخابات ماضی کے تمام انتخابات سے یکسر مختلف ثابت ہوں گے۔

ملک کے حالات اور عوام کی سوچ بدل چکی ہے اسلئے نتائج بھی مختلف ہوں گے اور عافیہ کی واپسی کا معاملہ اگلے الیکشن کے نتائج پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔الطاف شکور نے کہا کہ پاکستانی حکومت کو چاہئے کہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں امریکہ کے خلاف مقدمہ دائر کرے کہ ایک پاکستانی خاتون ڈاکٹر کو کراچی سے اغواء کرکے مقدمہ امریکہ میں کیسے چلایا۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ خواتین کے عالمی دن 2017 کو عافیہ کے نام کرے۔