فاٹا ریفارمز کمیٹی نے عوامی خواہشات کے برعکس رپورٹس تیار کیں،فاٹا کو الگ صوبہ کا درجہ دے کر بھی قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے،ریفرنڈم بہترین حل ہے،صوبوں کے حجم بڑھانے سے مسائل بڑھیں گے، انتظامی بنیاد پر مزید صوبے بننے چاہئیں ،حکومت عددی اکثریت کے بل بوتے پر فیصلے مسلط کرنے کی سوچ بدلے

سربراہ عوامی تحریک ڈاکٹر طاہر القادری کی سنٹرل کور کمیٹی کے ممبران سے گفتگو

جمعہ 3 مارچ 2017 21:41

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 03 مارچ2017ء) پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے کہا ہے کہ فاٹار یفارمز کمیٹی نے عوامی خواہشات کے برعکس رپورٹس تیار کیں ،فاٹا کو الگ صوبہ کا درجہ دے کر بھی قومی دھارے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ صوبوں کے حجم بڑھانے سے مسائل مزید بڑھیں گے ،اختیارات و وسائل کی مرکزیت اور ون مین شوکے خاتمے کیلئے انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے بننے چاہئیں ، حکومت عوامی خواہشات کے برعکس عددی اکثریت کے بل بوتے پر فیصلے مسلط کرنے کی سوچ بدلے۔

فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ فاٹا کے عوام کو ہی کرنا چاہیے اور ریفرنڈم اس کا سب سے بہتر طریقہ ہے۔ گزشتہ روز سنٹرل کور کمیٹی کے ممبران سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق فاٹا ریفارمز کمیٹی کو فاٹا کے عوام نے تین مطالبات پیش کیے (1)فاٹا کی تعمیر نو(2)آئی ڈی پیز کی واپسی اور بحالی (3)ایف سی آر کے قوانین میں تبدیلی ۔

(جاری ہے)

فاٹا ریفارمز کمیٹی کو غلط رپورٹس مرتب کرنے کا کوئی حق نہیں تھا۔ جتنے بھی جرگے ہوئے ان میں یہی مسائل سرفہرست تھے۔ فاٹا کے عوام کو شکوہ ہے کہ آٹھ سال کے بعد بھی مقامی آبادی دربدر اور سیاسی سماجی معاشی سرگرمیوں سے محروم ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کے عوام 21 ویں صدی میں بھی زمانہ غار جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ قومی سطح پر شرح خواندگی 58فیصد ہے جبکہ فاٹا میں شرح خواندگی 33فیصد ہے۔

پورے پاکستان میں 86فیصد خواتین کو ڈاکٹرز کی زیر نگرانی پیدائش کی طبی سہولت میسر ہے جبکہ فاٹا میں یہ شرح صرف 29 فیصد ہے۔ فاٹا کے 78فیصد عوام پختہ گھروں کی سہولت سے محروم ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا فاٹا کے عوام پاکستان کے وفادار شہری نہیں ہیں ۔فاٹا کے ساتھ اس سوتیلی ماں والے سلوک کا ذمہ دار کون ہی انہوں نے کہا کہ میں پیشگی خبردار کررہا ہوں کہ فاٹا کے عوام کی مرضی کے برعکس جو فیصلے بھی ہوں گے وہ دیرپا ثابت نہیں ہونگے اور نہ ہی اس سے فاٹا کے حالات بدلیں گے اور نہ ہی امن کے قیام کے خواب شرمندہ تعبیر ہونگے اور اگر کوئی زبردستی کی گئی تو فاٹا کے عوام کا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی اعتماد اٹھ جائیگا۔

بلاشبہ پاکستان کے امن کیلئے فاٹا کے عوام نے قابل تقلید اور بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ پورے پاکستان کے عوام فاٹا کے عوام کے شکر گزار ہیں۔ فاٹا کے عوام پاکستان کے تحفظ کی علامت اور ضمانت ہیں ان کے ساتھ کوئی زور زبردستی نہیں ہونی چاہیے۔ فاٹاکے منتخب نمائندوں کو بھی حکومتی رعب ،لالچ سے بالا ہو کر اپنے عوام کی اور اپنے خطہ کے مستقبل کی بے باک انداز میں نمائندگی کرنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کی یہ بھول ہے کہ وہ فاٹا کے پارلیمانی نمائندوں کو بھاری ترقیاتی فنڈز دے کر مرضی کے قوانین بنوالے گی۔ فاٹا کے عوام ایسی کسی زبردستی کو قبو ل نہیں کرینگے۔ فاٹا کو ضم کرنا کوئی انتخابی حلقہ بندی بدلنے جیسا ایشو نہیں ہے۔ اس کے دیر پا اثرات ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ میں نے آٹھ ماہ قبل بھی یہ تجویز دی تھی کہ فاٹا کے مستقبل کا فیصلہ وہاں کے عوام کی منشاء کے مطابق کیا جائے اور ریفرنڈم اس کا بہترین حل ہے ۔

حیرت ہے کہ فاٹا اور خیبرپختونخوا کی حکومت اور وفاق ایک پیج پر نہیں ہے۔ یہاں تک کہ وفاقی حکومت کے اتحادی بھی حکومتی سوچ سے پوری طرح متفق نہیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا کہ پاکستان عوامی تحریک انتظامی بنیادوں پر مزید نئے صوبے بنانے کا ویژن رکھتی ہے جتنے زیادہ صوبے ہوں گے وسائل اور اختیارات کی مرکزیت کا خاتمہ ہو گا اور عام آدمی کے انصاف ، صحت اور لاء اینڈ آرڈر سے متعلق مسائل حل ہونگے۔

متعلقہ عنوان :