پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں ، موجودہ دور کے اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ سی پیک سے جنوبی اوروسطی ایشیا کا خطہ منسلک ہوگا ‘ای سی او فورم حقیقی ترقی کا خواب پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔وزیراعظم نوازشریف کا اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس سے خطاب

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 1 مارچ 2017 11:39

پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی ..
 ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم مارچ۔2017ء) وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ ہم پرامن ہمسائیگی کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں،وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں ،ہمیں موجودہ دور کے اقتصادی چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ سی پیک سے جنوبی اوروسطی ایشیا کا خطہ منسلک ہوگا، پاکستان کی معیشت کی بہتری کا عالمی ادارے اعتراف کررہے ہیں، ای سی او فورم حقیقی ترقی کا خواب پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے،ٹرانسپورٹ اور انفرااسٹرکچر کے بغیر اقتصادی ترقی ممکن نہیں۔

اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم کے 13ویں سربراہی اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم پاکستان نے ترکمانستان، ترکی، ایران، تاجکستان اور آذربائیجان کے صدور سمیت دیگر شرکاءکو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اجلاس میں چین اور اقوام متحدہ کے نمائندوں کی شرکت پر مشکور ہیں۔

(جاری ہے)

22 سال بعد اسلام آباد میں ہونے والے ای سی او سربراہی اجلاس کی صدارت اور میزبانی وزیراعظم نواز شریف کررہے ہیں جبکہ اجلاس میں 5 رکن ممالک کے صدور اور 3 رکن ممالک کے وزرائے اعظم شریک ہیں۔

وزیراعظم نوازشریف کا کہناتھاکہ سی پیک کو معاشی سرگرمیوں کے لیے تسلیم کیا جاچکاہے ، 20 کروڑ آبادی کے ساتھ پاکستان دنیا کی بڑی مارکیٹ ہے ، پاکستان کے اقتصادی اشاریے درست سمت میں گامزن ہیں،ہم خطے میں ٹرانسپورٹ اورتجارت کا فروغ چاہتے ہیں۔وزیراعظم نے مزید کہا کہ ای سی او تنظیم بڑے خطے کا احاطہ کرتی ہے،دنیا کی 52فیصد تجارت یہاں سے ہوتی ہے،یہ خطہ تجارتی سرگرمیوں کا مرکز بن رہا ہے،مشترکہ خوشحالی کے لیے رابطوں کا فروغ ضروری ہے،سربراہ اجلاس میں انہیں مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز ہوگی۔

نواز شریف نے کہا کہ امن و استحکام سے خوشحالی کے اہداف حاصل ہوسکتے ہیں، ریلوے ،شاہراہیں،تیل و گیس کی پائپ لائنیں خطے کو قریب لارہی ہیں، مواصلات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری ہورہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ای سی او کا خطہ بے پناہ وسائل اور صلاحیتوں سے مالا مال ہے اور سربراہ اجلاس میں رابطوں کو مزید مربوط بنانے پر توجہ دی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کی 52 فیصد تجارت ای سی او کے خطے سے ہوتی ہے اور یہ خطہ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز رہا ہے۔نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اقتصادی اشاریئے درست سمت میں گامزن ہیں اور وقت آگیا ہے کہ ہم اپنا تاریخی کردار ادا کریں، خطے میں مشترکہ خوشحالی کے لیے رابطوں کا فروغ ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مواصلات کے شعبوں میں بڑے پیمانے پر خطے میں سرمایہ کاری ہورہی ہے اور ریلوے، شاہ راہیں، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں خطے کے ملکوں کو قریب لارہی ہیں۔

تنظیم کا بارہواں سربراہ اجلاس آذربائیجان کے شہر باکو میں 2012 میں ہوا تھا۔13 ویں سربراہ اجلاس کا موضوع "علاقائی خوشحالی کے لیے رابطے" ہے، جسے پاک-چین اقتصادی راہداری منصوبے کے تناظر میں خصوصی اہمیت حاصل ہے، اجلاس میں ای سی او کے ویژن 2025 کی منظوری بھی دی جائے گی۔ سربراہ اجلاس میں وزیراعظم نواز شریف ، ترکی کے صدر رجب طیب اردوان، ایران کے صدر حسن روحانی، آذربائیجان کے صدر الہام علیوف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، ترکمانستان کے صدر قربان علی بردی محمدوف، کرغزستان کے وزیراعظم سورن بے شری پووچ جین بی کوف اور ازبکستان کے نائب وزیراعظم اوگبک روزی کولوف شریک ہیں جبکہ افغانستان کی نمائندگی پاکستان میں متعین افغان سفیرکررہے ہیں۔

سربراہ اجلاس میں اسلام آباد اعلامیہ اور اقتصادی تعاون تنظیم کے وژن 2025 کی منظوری دی جائے گی، جسے وزراءکی کونسل منظور کرچکی ہے، جو اقتصادی تعاون اور روابط بڑھانے کیلئے ایک لائحہ عمل پر مشتمل ہے۔اجلاس کے اختتام پر اعلان اسلام آباد جاری کیا جائے گا۔اقتصادی تعاون کی تنظیم ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں دس ممالک شامل ہیں۔ یہ رکن ممالک کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع ترتیب دے کر انہیں ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کرتی ہے۔

اس کے رکن ممالک میں افغانستان، آذربائیجان، ایران، قازقستان، کرغزستان، پاکستان، تاجکستان، ترکی، ترکمانستان اور ازبکستان شامل ہیں۔ ای سی او کا صدر دفتر ایران کے دارالحکومت تہران میں واقع ہے۔ اس تنظیم کا مقصد یورپی اقتصادی اتحاد کی طرح اشیاء اور خدمات کے لئے واحد مارکیٹ تشکیل دینا ہے۔ یہ تنظیم 1985ءمیں ایران، پاکستان اور ترکی نے مل کر قائم کی تھی۔

اس تنظیم نے علاقائی تعاون برائے ترقی یعنی آر سی ڈی کی جگہ لی جو 1962ءمیں قائم ہوئی اور 1979ءمیں اس کی سرگرمیاں ختم ہوگئیں۔ 1992ءکے موسم خزاں میں افغانستان سمیت وسط ایشیا کے 7 ممالک آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ترکمانستان اور ازبکستان کو بھی تنظیم کی رکنیت دی گئی۔رکن ممالک کے درمیان 17 جولائی 2003ءکو اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم تجارتی معاہدہ (ECOTA) پر دستخط کئے گئے۔

اس تنظیم کے تمام رکن ممالک موتمر عالم اسلامی (او آئی سی) کے بھی رکن ہیں جبکہ 1995ئ سے ای سی او کو او آئی سی میں مبصر کا درجہ بھی حاصل ہے۔آرسی ڈی کے تحت تینوں ممالک میں راابطہ قائم کرنے کے لیے شاہراہ آرسی ڈی بھی قائم کی گئی تھی جو کہ پاکستان میں این-25 کہلاتی ہے اورسندھ کوبلوچستان سے منسلک کرتی ہے اوراس سے آگے پاکستان کو ایران اور ترکی سے بھی جوڑتی ہے۔حال ہی میں اس شاہراہ کو گوادر سے بھی منسلک کیا گیا ہے۔