فوجی عدالتوں میں توسیع کی آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دونوں کی طرف سے تاخیر ہوئی ہے پیپلز پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس میں مشاورت کے بعد شرکت کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے ،امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق

اس معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی اپنی غیر جانبدار حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکے اور وزیر اعظم و حکومت کے لیے سہولت کار بن گئے سپیکر کاکام کسی بھی آئینی و قانونی ترمیم کا بل آنے کے بعد شروع ہوتا ہے ڈیڈ لاک ہوتا تو وہ ایوان کے محافظ کی حیثیت سے سامنے آتے وہ تو حکومتی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری کی سراج الحق سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو

منگل 28 فروری 2017 23:41

فوجی عدالتوں میں توسیع کی آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے وزیر اعظم ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 28 فروری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کی آئینی ترمیم پر اتفاق رائے کے لیے وزیر اعظم محمد نواز شریف اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ دونوں کی طرف سے تاخیر ہوئی ہے پیپلز پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس میں مشاورت کے بعد شرکت کرنے نہ کرنے کا فیصلہ کریں گے جبکہ سابق چیئرمین سینیٹ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری نے الزام عائد کیا ہے کہ اس معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی اپنی غیر جانبدار حیثیت کو برقرار نہیں رکھ سکے اور وزیر اعظم و حکومت کے لیے سہولت کار بن گئے سپیکر کاکام کسی بھی آئینی و قانونی ترمیم کا بل آنے کے بعد شروع ہوتا ہے ڈیڈ لاک ہوتا تو وہ ایوان کے محافظ کی حیثیت سے سامنے آتے وہ تو حکومتی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں ان خیالات کا اظہار دونوں رہنمائوں نے منگل کی شام اسلام آباد میں ملاقات کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلٰی سطح کے وفد نے فوجی عدالتوں میں توسیع پر وسیع اتفاق رائے سے متعلق کل جماعتی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دینے کے لیے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق سے ملاقات کی وفد کی قیادت اور پارٹی کے سیکریٹری جنرل نیئر حسین بخاری کر رہے تھے وفد میں سینیٹر فرحت اللہ بابر، سینیٹر عبدالقیوم سومرواور سردار علی خان شامل تھے ملاقات میں جماعت کیطرف سے قومی اسمبلی میں پارلیمانی صاحبزادہ طارق اللہ اور نائب امیر میاں محمد اسلم بھی موجود تھے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں توسیع کے حوالے سے کوئی عام بل نہیں آئے گا بلکہ آئین میں ترمیم ہونا ہے وسیع مشاورت کی ضرورت ہے جماعت اسلامی کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی ہے اور جماعت اسلامی مشاورت کے بعد اپنی پوزیشن سے آگاہ کرے گی سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ اس معاملے پر اتفاق رائے حکمران جماعت بالخصوص وزیر اعظم محمد نواز شریف کا تھا کیونکہ نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس وزیر اعظم نے ہی بلائی تھی انکی صدارت میں ہوئی تھی اور سیاسی جماعتوں نے ملکر نیشنل ایکشن پلان کے نکات کو حتمی شکل دی تھی 720دن گزر گئے ہیں حالات جوں کے توں ہیں اور ہم لاہور ، سیہون شریف اور چارسدہ میں سانحات اور حادثات دیکھ چکے ہیں قوم ایک بار پھر ڈپریشن میں چلی گئی ہے حکومت کا موقف ہے کہ دو سال کے لیے فوجی عدالتوں کی مذید ضرورت ہے اور حکومت کے مطابق فوجی عدالتوں کے علاوہ کوئی راستہ موجود نہیں ہے حکومت نے حالات کے سامنے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں انہوں نے کہا کہ کوئی بھی معاملہ عددی اکثریت کی بنیاد پر آگے نہیں بڑھتا قومی اتفاق رائے کرنا پڑتا ہے انہون نے کہا کہ جمہوری نظام میں سپیکر کاکام ثالث کا ہوتا ہے اورجب حکومت اور اپوزیشن میں تنائو یا کسی مسئلے پر شدید اختلافات پیدا ہو جائیں تو سپیکر کو اس وقت ثالثی کرنی پڑتی ہے انہوں نے کہا کہ اس اتفاق رائے کے حوالے سے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کو سامنے آنا چاہیے تھا یہ سپیکر کا کام نہیں تھا جب بل متعارف ہو جاتا اور کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہو جاتا تو سپیکر موثر کردار ادا کر سکتے تھے اور اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کے لیے سپیکر ہی آخری شخصیت ہوتی ہے مگر حکومت نے جو کام آخر میں کرنا تھا وہ پہلے مرحلے میں کر لیا سید خورشید شاہ کا بھی کام تھا کہ وہ سیاسی جماعتوں کو اس اہم ایشو پر مشاورت کے لیے بلاتے اور وہاں اتفاق رائے کی بات ہوتی امیر جماعت اسلامی پاکستان نے پنجاب میں پختونوں کے خلاف کاروائی کی مذمت کی اور کہا کہ نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ خواتین کو بھی تنگ کیا جا رہا ہے ایسے ہی رویوں کی وجہ سے سانحہ مشرقی پاکستان جیسے واقعات ہوتے ہیں بنگلہ دیش بھی ہمارے رویوں کی وجہ سے بنا ایک ہونے کی ضرورت ہے اور کسی صوبے میں مخصوص انداز میں کاروائی تقسیم کرنے کی سازش ہے جس سے قومی مفاد پر حرف آسکتا ہے پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے پر ہمارے ساتھ ہے اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید نے بھی اس حوالے سے سخت بیان دیا ہے اب تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ قوم کو تقسیم کرنے کی سازش کو ناکام بنائیں دہشتگرد اس تقسیم کے لیے اس معاملے کو استعمال کر سکتے ہیں نیئر حسین بخاری نے کہا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں میں توسیع کے معاملے پر تاخیر کی ہے اور جب ہم کل جماعتی کانفرنس کے لیے متحرک ہوئے تو حکومت کو بھی اتفاق رائے کا خیال آگیا اسحاق ڈار نے جو اعلان کیا ہے وہ اے پی سی کے حوالے سے ہماری کوششوں کا نتیجہ ہے نیئر حسین بخاری نے پنجاب میں پختونوں کے خلاف کاروائی کو فیڈریشن کے خلاف سازش قرار دے دیا نیئر حسین بخاری نے کہا کہ حکومت نے ترمیم کے مسودے پر اتفاق رائے کی بات کی ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ بہتری اور نوک پلک کو درست کرنے کی گنجائش موجود رہتی ہے حکومت اگر اکتوبر اور نومبر سے اس معاملے پر کام شروع کردیتی تو شاید فروری میں لاہور ، سیہون شریف ، چارسدہ جیسے بڑے سانحات سے محفوظ رہتے قانون سازی حکومت کا کام ہوتا ہے تاہم سپیکر نے جو اقدام اٹھایا ہے وہ ڈرافٹ کی تیاری کا ہے سپیکر کا کام اس وقت شروع ہوتا ہے جب بل ٹیبل ہو جائے یا ڈیڈ لاک ہو سپیکر نے اپنی جانبداری کا مظاہرہ کیا اور وہ حکومت اور وزیر اعظم نواز شریف کی نمائندگی کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ سپیکر کی حیثیت ایوان کے محافظ کی ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں قیادت کو وسیع تر مشاورت کا موقع ملے گا اور یہ اے پی سی فیڈریشن کے مفاد میں بھی نیک شگون ہو گی اے پی سی میں حکومتی بل کو بھی زیر بحث لایا جا سکتا ہے کیونکہ ابھی تک یہ مجوزہ بل ہے۔

اع