وزیراعظم نواز شریف نے قومی خزانے سے تمام ریٹائر چیف جسٹس صاحبان کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں تاحیات فراہم کرنے کی منظوری دے دی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم منگل 28 فروری 2017 11:36

وزیراعظم نواز شریف نے قومی خزانے سے تمام ریٹائر چیف جسٹس صاحبان کیلئے ..
ا سلام آباد(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔28 فروری۔2017ء) وزیراعظم نواز شریف نے قومی خزانے سے تمام ریٹائر چیف جسٹس صاحبان کیلئے بلٹ پروف گاڑیوں کی فراہمی کی منظوری دے دی ہے، جس کا اطلاق ریٹائر چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہوگا۔وفاقی حکومت کے موقف میں یہ تبدیلی حیران کن ہے کیونکہ وہ اس سے قبل سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بلٹ پروف گاڑی واپس لینے کی کوشش کررہی تھی۔

حالیہ تبدیلی 5 ستمبر 2016 کو حکومت کے سابقہ موقف میں دیکھی گئی، جب وزیراعظم نے فیصلہ کیا تھا کہ تمام سابقہ چیف جسٹس کو 2400 سی سی کی بلٹ پروف ایس یو ویز فراہم کی جائیں گی۔یہ انکشاف کابینہ ڈویژن کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کو پیش کی گئی ایک سمری میں کیا گیا، جو حکومت کی جانب سے جسٹس افتخار محمد چوہدری سے بلٹ پروف گاڑی کی واپسی کے حوالے سے دائر ایک اپیل کی سماعت کررہی تھی۔

(جاری ہے)

وزیراعظم کے سیکریٹری فواد حسن فواد کی جانب سے دستخط کی گئی سمری کے مطابق چیف جسٹس آف پاکستان کا دفتر ایک منفرد دفتر ہے جس کو تمام شکلوں میں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔سمری میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے فرائض کی نوعیت، خاص طور پر دہشت گردی اور جرائم کے مقدمات کی سماعت کے حوالے سے، کے مطابق انھیں ریٹائرمنٹ کے بعد بھی کچھ خاص قسم کی بنیادی سہولیات کی ضرورت ہے۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ تمام چیف جسٹس کو 2400 سی سی کی ایک گاڑی فراہم کی جائے جس کا اطلاق سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ہوگا یہ سہولت چیف جسٹس کو ان کی پوری زندگی کیلئے حاصل ہوگی جبکہ اس کے تمام اخراجات کو مکمل کرنا سپریم کورٹ آف پاکستان کی ذمہ دار ہو گا۔سمری کے مطابق اسی طرح کی دو گاڑیاں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے بعد ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی اور ناصر الملک کو بھی فراہم کی جائیں گی۔

تاہم وزیراعظم کے سیکریٹری کی جانب سے پیش کی گئی اس سمری کو انتہائی جلد بازی میں مکمل کیا گیاتھا کیونکہ اس میں 17 اگست 2015 کو ریٹائر ہونے والے جسٹس جواد ایس خواجہ کا نام شامل نہیں تھا۔تاہم بعد میں 4 اکتوبر 2016 کو سیکریٹری فواد حسن فواد کی جانب سے سمری میں ترمیم کا ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس میں ریٹائرڈ جسٹس جواد ایس خواجہ کا نام ریٹائر جسٹس ناصر الملک کے بعد سمری میں شامل کردیا گیا۔

سمری میں یہ تجویز بھی پیش کی گئی کہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے زیر استعمال موجودہ بلٹ پروف گاڑی ان سے واپس لے کر انھیں نئی گاڑی فراہم کی جائے گی۔جون 2016 کو کابینہ ڈویژن نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو بتایا تھا کہ وزیراعظم کی اجازت کے بعد سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ایک بلٹ پروف مرسیڈیز بینز گیارہ دسمبر 2013 کو خصوصی طور پر 3 ماہ کیلئے فراہم کی گئی تھی۔

اس خط کے مطابق عدالت کے ایک رکنی بینچ نے یکم جنوری 2014 کو اپنے ایک فیصلے میں سابق چیف جسٹس کو بغیر کسی وقت کی قید کے بلٹ پروف گاڑی اپنے استعمال میں رکھنے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی وزارت قانون اور انصاف کو اس کے اخراجات فراہم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی تھی۔اس میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ وزیراعظم کے دفتر تک پہنچا دیا گیا تھا جنھوں نے کابینہ کو ایک اپیل دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اسلام آباد کے دو رکنی بینچ نے حکومت کی اپیل پر فیصلہ دیتے ہوئے ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا لیکن ساتھ ہی اس کی دوبارہ سماعت کیلئے کیس واپس ایک رکنی بینچ کو منتقل کردیا۔جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر مشتمل مذکورہ ایک رکنی بینچ نے 2 دسمبر 2016 کو سابق چیف جسٹس کو حکم دیا تھا کہ وہ بلٹ پروف گاڑی واپس کردیں لیکن ان کے حکم پر عمل درآمد نہیں کیا گیا اور بعد ازاں جج نے خود کو اس کیس سے علیحدہ کرلیا۔گذشتہ روز اسلام آباد نے وفاقی حکومت، افتخار محمد چوہدری اور نجی وکیل ریاض حنیف راہی کے دلائل سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا۔