پی آئی اے مافیا نے مسافروں کو ٹشو ‘ تکیے اور سلاد کی فراہمی کے نام پر کروڑوں لوٹ لئے‘ ادارہ میں جعلی اسناد پر بھرتی ہونے والے افسران کی بھرمار‘ جوبلی انشورنس سے مل کر افسران نے کرپشن کرڈالی‘ تحقیقاتی رپورٹ ملنے کے باوجود کسی افسر کو سزا نہ مل سکی

پیر 27 فروری 2017 22:50

پی آئی اے مافیا نے مسافروں کو ٹشو ‘ تکیے اور سلاد کی فراہمی کے نام پر ..
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 فروری2017ء) پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی ای) میں موجود کرپٹ مافیا کے مسافروں کو ٹشو ‘ تکیے اور سلاد کی فراہمی کے نام پر کروڑوں روپے کی کرپشن کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ کرپٹ مافیا نے طلباء کو مفت تعلیم فراہم کرنے کے نام پر بھی کرپشن کر ڈالی ہے۔ ادارہ میں درجنوں افسران کی اسناد بھی جعلی ثابت ہوئی ہیں لیکن کسی کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔

انتظامیہ کارگو ایجنٹوں سے کروڑوں روپے کی ریکوری کرنے میں ناکام ہوگئی ہے۔ پی آئی اے میں جاری کروڑوں روپے کی کرپشن کے حساس رپورٹ سامنے آگئی ہے۔ اعلیٰ افسران کی ڈگری بھی جعلی قرار دے کر نکالنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ انتظامیہ نے جوبلی انشورنس سے مل کر 56 ملین کا غبن کر رکھا ہے۔

(جاری ہے)

حکومتی ذرائع سے ملنے والی پی آئی اے کے اندر کرپشن بارے تحقیقات رپورٹ کے مطابق سرکاری حکام نے ملک محمد حسین فلائٹ انجینئر کی تقرری کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے ان کی تقرری سے ادارہ کو 1.4 ملین روپے کا نقصان پہنچایا گیا تھا تاہم غیر قانونی تقرری کرنے والے افسران اور اتھارٹی کے خلاف ابھی تک محکمانہ کا آغاز نہیں ہوسکا اس کے علاوہ جاوید پیارالی اگروال کی تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دے کر ان سے 21.6 ملین روپے واپس لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق پی آئی اے کے اعلیٰ اتھارٹی نے پائلٹوں ‘ انجینئروں اور کیبن عملہ کے نام پر غیر قانونی طریقہ سے جوبلی انشورنس کمپنی کو 56 ملین روپے ادا کر رکھے ہیں۔ بہاولپور ائیرپورٹ کی انتظامیہ نے گاڑیوں کے پرزے و پیٹرول کی فراہمی کے نام پر 37 لاکھ روپے کی مالی بدعنوانی کا ارتکاب کر رکھا ہے۔ یہ خریداری الائیڈ پاور سیکشن سے کی گئی تھی۔

ادارہ کی ساکھ کو بہتر بنانے کیلئے انتظامیہ نے اشتہارات کی مد میں تین کروڑ روپے اڑا رکھے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے انتظامیہ نے معاہدے کا وقت پورا ہونے کے بعد بھی مختلف ٹھیکیداروں کو 94 ملین روپے ادا کئے تھے جن کا ریکارڈ بھی موجود نہیں ہے۔ افسران نے موبائل فون اور واکی ٹاکی کی خریداری کے نام پر 3.28 ملین روپے اڑا رکھے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ پی آئی اے کی انتظامیہ نے کارگو ایجنٹوں سے 168 ملین روپے وصول ہی نہیں کئے ان میں ملکی اور غیر ملکی ایجنٹ بھی شامل ہیں۔

افسران نے غیر قانونی طریقہ سے ادارہ کے خرچ سے 45 لاکھ روپے کی دوائیاں ڈکار گئے ہیں ابھی تک کسی کرپٹ کی نشاندہی بھی نہیں ہوئی ۔ انتظامیہ نے علی اکبر پٹھان اور احمد صدیقی کو غیر قانونی طو رپر پچاس لاکھ روپے فراہم کئے جو ابھی تک واپس ہی نہیں لئے گئے جبکہ ثمینہ نسیم نامی سروس ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت دے کر 35 روپے ادا کئے گئے ہیں پی آئی اے میں سلیمان سعید اور مسز عذرا پروین بٹ کی ڈگری جعلی نکلی ہیں جس سے ادارہ کو 197 ملین روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا’ اس کے علاوہ عاصم کریم اور مسز سروری کی تقرری کو بھی جعلی قرار دے کر 26 لاکھ وپصول کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

افسران کی بہتات کے باوجود انتظامیہ نے کارپوریشن بزنس کے لئے کنسلٹنٹ بھرتی کر رکھے ہیں جس سے ادارہ کو تین ملین روپے کا نقصان ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق واصف علی قریشی کی تقرری کو بھی غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور بارہ ملین کا ادارہ کو نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ نوید شہزادہ نامی سخص کو بھی غیر قانونی طور پر بھرتی کیا گیا تھا۔ فلائٹ کے اندر مسافروں کو سلاد کی فراہمی کیلئے 41 لاکھ روپے کی کرپشن کی گئی ہے اس اشیاء کی خریداری کا جواز بھی نہیں بنتا تھا ۔

پی آئی اے میں ناقص پرزوں کی خریداری پر 19 ملین روپے ادا کئے گئے ہیں جبکہ سٹمپ ڈیوٹی کے نام پر 20 لاکھ روپے کی ریکوری بھی نہیں کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے انتظامیہ ٹشو باکس کی خریداری کے نام پر 18 ملین روپے کی مالی بدعنوانی کر رکھی ہے۔ جبکہ تازہ مرغیوں کے انڈوں کی خریداری کے نام پر بھی پندرہ ملین روپے کی مالی ہیرا پھیری کی گئی ہے۔

مسافروں کو پولی تھین بیگ کی خریداری پر چھ ملین روپے کی کرپشن ہے جبکہ مسافروں کو تکیہ کے لگژری کور اور میز کی خریداری پر 10 ملین روپے اڑا دیئے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی آئی اے میں مسافروں کو کھانوں کی فراہمی کے نام پر متعلقہ افسران نے 29 ملین روپے غبن کر رکھے ہیں ابھی تک کرپٹ افسران کی نشاندہی بھی نہیں ہوسکی۔ طلباء کو فیس معافی کے نام پر بھی افسران نے 17 لاکھ اپنی جیبوں میں ڈال رکھے ہیں جبکہ وسیم احمد خان کو 19 گریڈ میں بھرتی کیا گیا تھا اس کے علاوہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر جعلی بھرتی کرکے ادارہ سے لاکھوں روپے بٹورے گئے ہیں۔ (عابد شاہ/رانا مشتاق)

متعلقہ عنوان :