شام میں آزاد شامی فوج اور اسد انتظامیہ کے درمیان جھڑپیں،22فوجی ہلاک

شامی اپوزیشن کا ایک بار پھر بشار الاسد کی حکومت پر داعش سے گٹھ جوڑ کا الزام اسد رجیم اور داعش میں گٹھ جوڑ کے ناقابل تردید شواہد ہیں،اپوزیشن کا داعش اور اسد رجیم کے باہمی تعلق کو اقوام متحدہ میں لے جانے کا فیصلہ

پیر 27 فروری 2017 16:41

دمشق/جنیوا(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 27 فروری2017ء) شام کے شہر الباب کے جنوب میں آزاد شامی فوج اور اسد انتظامیہ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں انتظامیہ کے 22 فوجی ہلاک ہو گئے جبکہ جنیوا میں شام میں قیام امنکیلئے مذاکرات میں شامل شامی اپوزیشن کے ایک سینئر رکن نے ایک بار پھر بشار الاسد کی حکومت پر داعش سے گٹھ جوڑ کا الزام عاید کردیا ۔

غیر ملکی میڈیاکے مطابقشام کی تحصیل الباب کے جنوب میں آزاد شامی فوج اور اسد انتظامیہ کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں انتظامیہ کے 22 فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔فرات ڈھال آپریشن کے حلقے میں شامل آزاد شامی فوجی یونٹوں کا مشترکہ نمائندے ہاوار کیلیس آپریشن روم نے سوشل میڈیا پیج سے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ جھڑپیں تحصیل الباب سے منسلک علاقے تادیف کے اطراف میں ہوئیں۔

(جاری ہے)

الباب پر ترک مسلح افواج کے تعاون کی حامل آزادی شامی فوج کے کنٹرول کے بعد تحصیل میں موجود دہشت گرد تنظیم داعش کے دہشت گرد جنوبی تادیف کے علاقے کی طرف پیش قدمی کر گئے تھے۔دہشت گرد تنظیم نے بغیر کسی جھڑپ کے علاقے کو اسد فورسز کے حوالے کر دیا تھا۔آزاد شامی فوج اور انتظامی فورسز کے درمیان اس سے قبل الباب کے جنوب مغربی گاوں ابو زیدین میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔

دوسری جانب جنیوا میں شام میں قیام امن کے لیے مذاکرات میں شامل شامی اپوزیشن کے ایک سینیر رکن نے ایک بار پھر بشار الاسد کی حکومت پر داعش سے گٹھ جوڑ کا الزام عاید کیا ہے۔ حزب اختلاف کی مذاکراتی ٹیم کے سینیر رکن کرنل فاتح حسون نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسد رجیم اور شدت پسند گروپ داعش کے درمیان خفیہ طور پر باہمی تعاون کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔

ایک بڑا ثبوت تاریخی شہر 'تدمر' داعش کے حوالے کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ داعش اور اسد رجیم کے گٹھ جوڑ کے شواہد جلد اقوام متحدہ کو پیش کریں گے۔کرنل فاتح حسون نے کہا کہ حمص میں فوجی تنصیبات پر حملہ خود اسد رجیم نے کرایا۔ اس حملے میں بشار الاسد کی حکومت کے ملوث ہونے کی بھی شواہد موجود ہیں۔ اس حملے کا مقصد جنیوا میں جاری امن بات چیت کو سبوتاژ کرنا تھا۔

اپوزیشن کے ایک دوسرے رکن نصر الحریری نے شامی حکومت پر مذاکرات میں رخنہ ڈالنے کا الزام عاید کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سرکاری مذاکراتی وفد میں پانچ افراد شامل ہیں جو کہ قاہرہ اور ماسکو کے مذاکراتی وفود سے بھی کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شام کے سرکاری ایلچی بشارالجعفری نے نہتے شہریوں پر وحشیانہ بمباری پر کوئی بات نہیں کی۔نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نصر الحریری کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے میں اپوزیشن کا نقطہ نظر واضح اور دو ٹوک ہے۔

ہم دہشت گردی کی ہر شکل کی بھرپور مذمت کرتے ہیں اور شام میں غیرملکی ایجنڈا مسلط کرنے کے خلاف ہیں۔قبل ازیں شام کے سرکاری مذاکرات کار بشار الجعفری نے ایک بیان میں اپوزیشن پر زور دیا تھا کہ وہ حمص میں ہونے والے بم دھماکوں کی کھل کر مذمت کرے۔ ان حملوں میں 42 افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔ فتح الشام محاذ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔