فرقہ وارانہ نفرت اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی، داعش کو پاکستان میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔مشرق وسطی کی صورتحال تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے- بعض عرب ممالک میں امن وامان کی صورتحال خوفناک حد تک بگڑسکتی ہے اور” مطلوبہ نتائج“حاصل کرنے کے لیے دنیا میں پرامن ترین تصور کیئے جانے والے ان عرب ملکوں میں امن وامان کے حوالے سے حالات پاکستان ‘افغانستان یا بغدادجیسے ہوسکتے ہیں تاکہ ان انتہائی امیرریاستوں کو عدم تحفظ کا شکار کرکے جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاسکے-ماہرین

Mian Nadeem میاں محمد ندیم پیر 27 فروری 2017 12:22

فرقہ وارانہ نفرت اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی، داعش کو پاکستان میں ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-میاں محمد ندیم سے۔27 فروری۔2017ء) محکمہ انسداد دہشت گردی نے انکشاف کیاہے کہ فرقہ وارانہ نفرت اور کالعدم تنظیموں کی موجودگی، دہشت گرد تنظیم داعش کو عسکریت پسندوں کی بھرتی کے ذریعے پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں اپنے پنجے گاڑنے کا موقع فراہم کرسکتی ہے۔ عراق اور شام میں داعش کا وحشیانہ قبضہ اور یورپ میں اس کی موجودگی نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی تاہم مشرقی ممالک اور خاص طور پر پاکستان میں اس کا بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر کسی کا دھیان نہیں گیا۔

پاکستان مشرق وسطی میں جاری جنگ کا حصہ اس وقت بنا جب ایران کی اپیل پر عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے اہل تشیع نوجوانوں سے رضاکارانہ طور پر ایرانی خفیہ اداروں کے تحت گوریلا جنگ لڑنے والے ملیشیا گروپوں میں شمولیت کی دعوت دی گئی-عراق اور شام میں پاکستانی اور افغانی شیعہ نوجوانوں کی شمولیت کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایرانی فوج کی فوجی اعزازکے ساتھ ایرانی فوجیوں کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور ایرانی شعیہ نوجوانوں کے تابوتوں کی تصاویر سامنے آئیں-ایک رپورٹ میں بتایاگیا کہ پاکستان اور افغانستان کی شعیہ تنظیموں کی عراق ‘شام اور یمن میں جاری جنگوں میں دلچسپی کی وجہ سے روایتی حریف مذہبی جماعتیں بھی اس فرقہ ورانہ جنگ میں کود پڑیں ‘عراق میں امریکا کی جانب سے شیعہ وزیراعظم مسلط کیئے جانے کے بعد عراق میں سنی مسلمانوں کی نسل کشی کی خبریں ‘تصاویر اور ویڈیوزسوشل میڈیا پر دکھا کر فرقہ ورانہ جذبات کو بھڑکایا گیا-ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے مسلمانوں کے درمیان فرقہ ورانہ اختلافات کو جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کیا جبکہ ایران نے خطے میں بالادستی اور توسیع پسندانہ سوچ کے تحت ایسی پالیسی اختیار کی جس کا فائدہ امریکا اور نیٹو افواج کو پہنچا عراق میں مسلمانوں کے درمیان فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے حملہ آوار قوتوں کے خلاف کوئی موثرتحریک شروع نہ ہوسکی بلکہ فرقہ ورانہ اختلافات کی وجہ سے فریقین نے اپنی ‘اپنی بالادستی کے لیے حملہ آوروں کی مدد کی-عراق کے بعد اسی فرقہ ورانہ تقسیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شام اور یمن میں جنگ کا بازار گرم کیا گیا‘مغرب کے بعض دانشور اور جرائد اس صورتحال کو تیسری عالمی جنگ کا آغازبھی قرار دے رہے ہیں -سعودی فوجی اتحاد اگرچہ ابھی توجہ حاصل نہیں کرسکا مگر کہا جارہا ہے کہ آنے والے دنوں میں سعودی فوجی اتحاد ”پلان“کے تحت اسلامی نیٹو قرار پائے گا جس کے ذریعے توڑپھوڑکا شکار نیٹو اتحاد کو نئی جلاءبخشنے کی کوشش کی جائے گی-اس خدشے کا اظہار بھی کیا جارہا ہے کہ بعض عرب ممالک میں امن وامان کی صورتحال خوفناک حد تک بگڑسکتی ہے اور” مطلوبہ نتائج“حاصل کرنے کے لیے دنیا میں پرامن ترین تصور کیئے جانے والے ان عرب ملکوں میں امن وامان کے حوالے سے حالات پاکستان ‘افغانستان یا بغدادجیسے ہوسکتے ہیں تاکہ ان انتہائی امیرریاستوں کو عدم تحفظ کا شکار کرکے جنگ میں شامل ہونے پر مجبور کیا جاسکے‘امریکی اداروں کی بعض رپوٹوں میں انکشاف کیاگیا ہے کہ امریکا کے نیٹو اتحادی طویل اور مہنگی ترین جنگ سے اکتا چکے ہیں اور ایک ایک کرکے جنگ سے باہر ہوتے جارہے ہیں یہ حالات تیسری عالمی جنگ کے لیے انتہائی ”موزوں“خیال کیئے جارہے ہیں‘تاریخ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے موقع پر بھی ایسے ہی حالات کا سامنا تھا دنیا کو ‘ایک طرف داعش ابوبکر البغدادی کے عالمی خلافت کے مقصد کو حاصل کرنا چاہتی ہے جبکہ دیگر عسکریت پسند گروہ اپنے حکمرانوں کے خلاف مقامی تنازعات پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔

(جاری ہے)

متعدد جہادی افراد ابوبکر البغدادی کے نظریئے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ دیگر مشترکہ دشمنوں اور مخالفین کے باعث اس نظریئے کے حامی ہیں، سی ٹی ڈی کی رپورٹ میں بتایاگیا ہے کہ ان میں دیہی مرد و خواتین بھی شامل ہیں اور وہ عسکریت پسند بھی جو پاکستان میں اپنے شدت پسند ایجنڈے پر عمل کرنے کے لیے راہیں تلاش کررہے ہیں۔تاہم کئی ایسے ممکنہ ہمدرد بھی ہیں جنہوں نے داعش سے اپنی حمایت اب تک واضح نہیں کی مگر وہ اس تحریک کے پاکستان میں پھلنے پھولنے کے منتظر ہیں۔

رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار بھی کیا گیا کہ ملک کے مختلف حصوں میں شدت پسند گروہوں کی موجودگی کی وجہ سے داعش پاکستان میں اپنے قدم مضبوط کرنے کے مزید مواقع حاصل کرسکتی ہے۔ داعش کی جانب سے خلافت کا دعویٰ سامنے آنے کے بعد سے یہ گروہ پاکستانی جہادی گروہوں کی توجہ حاصل کررہا ہے، ان میں سے ایک جس پر تجزیہ کاروں کی نظر ہے وہ تحریک طالبان پاکستان ہے۔

ٹی ٹی پی ایک مرکزی گروپ نہیں بلکہ 42 سے زائد چھوٹے چھوٹے گروہوں پر مشتمل ہے۔2007 میں اپنی ابتداءکے بعد سے ٹی ٹی پاکستان میںسکولز، انسداد پولیو ورکرز، سیاسی رہنماوں، عسکری حکام اور دیگر پر ہونے والے درجنوں حملوں کی ذمہ داری قبول کرچکا ہے۔آغاز میں ٹی ٹی پی کا فضل اللہ دھڑا جس کی سربراہی ملا فضل اللہ کرتا ہے وہ داعش کی جانب جھکتا دکھائی دیا۔

دوسری جانب ٹی ٹی پی کا نام اس وقت متاثر ہوتا دیکھا گیا جب 2014 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں اس کا سربراہ حکیم اللہ محسود مارا گیا۔اس سے قبل اس تنظیم کے متاثر ہونے کی وجوہات پاکستانیوں شہریوں کے خالف بلاامتیاز کارروائیاں تھیں۔علاوہ ازیں جماعت میں پاکستانی حکومت سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے کے معاملے پر بھی واضح اختلاف پایا جاتا تھا، اس طرح یہ جمادی تقسیم ہوتے رہے اور اپنے گروہ بناتے رہے۔

داعش اب پاکستان کو خراسان والیت کا حصہ قرار دیتا ہے جس میں افغانستان اور وسط ایشیا کے کئی حصے شامل ہیں۔اسی وقت کئی ٹی ٹی پی کمانڈرز نےداعش سے دوری اختیار کیے رکھی اور ان میں سے ایک تحریک طالبان پاکستان کا دھڑا جماعت الاحرار ہے۔داعش سے اتحاد کا اعلان کرنے والا پہلا گروہ تحریک خلافت پاکستان تھا جو پہلے ٹی ٹی پی کا ہی حصہ تھا۔ماہرین کا کہنا ہے پاکستان میں داعش کوقدم جمانے سے روکنے کے لیے شیعہ کمیونٹی میں ایرانی اثرورسوخ کو بھی ختم کرنا ہوگا اور ایرانی خفیہ اداروں کو پاکستانی شیعہ جوانوں کو عراق‘شام اور یمن کی جنگوں کے لیے بھرتی پر بھی کڑی نظررکھنا ہوگی-

متعلقہ عنوان :