دہشت گردی کے نام پر افغانوں اور پشتونوں کی گرفتاریوں اور تشدد سے حکومت کے خلاف نفرت پھیل رہی ہے ‘سینیٹر سراج الحق

مجرم کالج اور یونیورسٹی کا پڑھا لکھا ہو یا مدرسہ کا اور داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی کے وہ مجرم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مجرموں والا سلوک ہی ہونا چاہئے ،مسلح دہشت گردی کو روکنے کیلئے نظریاتی اور معاشی دہشت گردی کا قلع قمع ضروری ہے ‘ امیر جماعت اسلامی

اتوار 26 فروری 2017 18:30

لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 فروری2017ء) امیرجماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے کہاہے کہ ۔ فوجی عدالتوں پر قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے مگراس حوالے سے ابھی تک حکومت خود گو مگو کا شکارہے ،ابھی تک حکومت نے سیاسی جماعتوں کے ساتھ مشاورت کی نہ انہیں اعتماد میں لیا،حکومت کو سول عدالتوں کو مضبوط کرنے اور عدلیہ کے تحفظ کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں تھے اور جہاںاسے سقم نظر آتا اسے ختم کرتی لیکن دوسال تک حکومت ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی اور فوجی عدالتوں کی مدت ختم ہوگئی ،اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ناکام ہوگئی ہے اور اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں تو اسے سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لینا اورقومی اتفاق رائے پیدا کرناچاہئے تھا،مجرم کالج اور یونیورسٹی کا پڑھا لکھا ہو یا مدرسہ کا اور داڑھی والا ہو یا بغیر داڑھی کے وہ مجرم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ مجرموں والا سلوک ہی ہونا چاہئے مگر دہشت گردی کی آڑ میں افغان مہاجرین یا پشتون علاقوں کے لوگوں کو تنگ کرنا درست نہیں ،مجرم مدرسہ کا ہو ،کالج اور یونیورسٹی کا ہو یا ایوانوں میں بیٹھا ہو،اس کی گرفتاری پر ہم حکومت کو شاباش دیں گے ،مسلح دہشت گردی کو روکنے کیلئے نظریاتی اور معاشی دہشت گردی کا قلع قمع ضروری ہے ۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے لاہور میں سابق ایم پی اے سید احسان اللہ وقاص کی طرف سے اپنے اعزاز میں دیئے گئے استقبالیہ کی تقریب سے خطاب اور بعد ازاں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔تقریب سے سیکرٹری جنرل جماعت اسلامی پاکستان لیاقت بلوچ اور امیر جماعت اسلامی لاہور ذکر اللہ مجاہد نے بھی خطاب کیا۔ سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ مجرموں کے خلاف جو بھی آپریشن ہو ہم اس کا خیر مقدم کریں گے مگر کسی آپر یشن کو مذہب اور مساجد و مدارس یا علماء او ر دینی طلباء کے خلاف استعمال نہ کیا جائے ۔

اگر اسلام کا نام لیکر کوئی آپریشن کیا جاتا ہے تو یہ دشمن کے ایجنڈے پر چلنے کے مترادف ہے اور قوم سمجھے گی کہ حکمران دشمن کی سازشوں کی تکمیل چاہتے ہیں۔ مجرموں کے خلاف ایکشن لینا چاہئے۔ دشمن کی دیکھا دیکھی اسلام کو ہدف نہیں بنانا چاہیے اگر ہم بھی اسلام کو بدنا م کریں گے تو پھر ہمارے اور دشمن کے درمیان کیا فرق رہ جائے گا۔افغانستان سے آنے والوں کو دشمن سمجھنا اور سب کو ایک ہی نظر سے دیکھنا ٹھیک نہیں ماضی میں حضرت علی ہجویری ؒ اور لعل شہبازقلندرؒ جیسے ولی اللہ بھی افغانستان سے اس سرزمین پر آئے جنہوں نے لاکھوں لوگوں کو اسلام کا پیغام پہنچایا اور مسلمان کیا۔

اس بنیاد پر کسی کو پکڑنا مناسب نہیں کہ یہ افغانستان سے آیا ہے ۔اس وقت لاکھوں افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں ان کو مجرموں کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے ۔اگر کوئی پشتو بولتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ پشتو بولنے والا ہر آدمی دہشت گرد ہے ہمیں اس مائنڈ سیٹ کو بدلنے کی اور مجرم پاکستان سے ہو یا افغانستان سے اسے پکڑنے کی ضرورت ہے ۔مجرم کوکوئی رعایت نہیں ملنی چاہئے ۔افغان او ر پشتون شہریوں کے خلاف کاروائیوں سے حکومت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہورہا ہے ۔کسی کو سندھی بلوچی ،پشتون یا پنجابی کی بنیاد پر گرفتار کرنا اور تشدد کا نشانہ بنانا قومی یکجہتی کیلئے انتہائی خطرناک ہے ۔

متعلقہ عنوان :