ملک میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر کراچی سمیت سندھ بھر کے وکلاء میں عدالتوں کی سکیورٹی کی حوالے سے تشویش کی لہر

سٹی کورٹ میںکئی واک تھرو گیٹس ناکارہ ہونے کا انکشاف،سٹی کورٹ میں24 گھنٹوں سیکورٹی ڈیوٹی کے لئے صرف 61 پولیس افسران اور اہلکار تعینات

جمعرات 23 فروری 2017 14:35

ملک میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر کراچی سمیت سندھ بھر کے وکلاء میں ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 فروری2017ء) ملک میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر ،پشاور میں ججز اور چارسدہ میں کچہری پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد کراچی سمیت سندھ بھر کے وکلاء میں عدالتوں کی سکیورٹی کی حوالے سے تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے ۔سٹی کورٹ میںکئی واک تھرو گیٹس ناکارہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔سٹی کورٹ میں24 گھنٹوں سیکورٹی ڈیوٹی کے لئے صرف 61 پولیس افسران اور اہلکار تعینات ہیں ۔

وکلاء برادری کی جانب سے متعدد بار فول پروف سکیورٹی فراہم کرنے کے مطالبے کے باوجود حکومت اس حوالے سے بھرپور اقدامات کرنے سے قاصر ہے ۔عدالتوں میں آنے والے سائلین اور وکلاء کو بغیر کسی تلاشی کے عدالت کے احاطے میں جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے جبکہ غیر متعلقہ افراد کی آمد ورفت بھی جاری ہے جو کسی بڑے سانحہ کا سبب بن سکتی ہے ۔

(جاری ہے)

جبکہ ذرائع کے مطابق ملک میں جاری دہشت گردی کی تازہ لہر نے جہاں معاشرے کے تمام طبقات کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے وہیں عدالتوں کی سکیورٹی کے حوالے سے وکلاء بھی شدید تحفظات کا شکار ہیں ۔

وکلاء کا موقف ہے کہ کسی تازہ واقعہ کے بعد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ہائی الرٹ جاری کیا جاتا ہے جس کے بعد سکیورٹی میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی گاڑیاں بھی عدالت کے باہر نظر آتی ہیں لیکن چند روز گذر جانے کے بعد معاملات بھی اسی طرح ہوجاتے ہیں جس سے وکلاء کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوجاتے ہیں ۔

ذرائع نے بتایا کہ سندھ ہائی کورٹ میں سائلین اور وکلاء سمیت 10ہزار اور سٹی کورٹ میں 25ہزار افراد کی آمد ورفت ہوتی ہے ۔اتنی بڑی تعداد میں آئے ہوئے لوگوں کے لیے سکیورٹی کے خصوصی انتظامات انتہائی ضروری ہیں جبکہ عدالت کی حدود سے باہر گھومنے والے فقیر ،پتھاریدار اور ٹھیلے والے بھی کسی سکیورٹی رسک سے کم نہیں ہیں ۔اس ضمن میں کراچی بار ایسوسی ایشن کی جانب سے گزشتہ دنوں چیف سیکرٹری سندھ کو ایک مراسلہ بھی ارسال کیا گیا تھا ۔

مراسلے کے مطابق سٹی کورٹ میں روزانہ 800 سے 900 قیدی پیشی کے لئے لائے جاتے ہیں۔وکلا رہنماؤں نے کئی بار سیکورٹی بڑھانے کے لئے اعلی پولیس افسران کو آگاہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی مثبت جواب نہیں دیا گیا ۔خط میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ سٹی کورٹ میں سکیورٹی پر مامور پولیس اہکار کم ہیں جس کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ ہو سکتا ہے اس لیے فوری طور پر سٹی کورٹ کے احاطے میں پولیس اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے ۔

وی وی آئی پی سیکورٹی کے بجائے سٹی کورٹ کو بھی سیکورٹی فراہم کی جائے جبکہ سٹی کورٹ کے سیکورٹی کے لئے پولیس کا خصوصی دستہ مختص کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتوں میں سی سی ٹی وی کیمرے اور دیگر آلات نصب کئے جائیں۔دوسری جانب سٹی کورٹ میںکئی واک تھرو گیٹس ناکارہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے ۔سٹی کورٹ میں24 گھنٹوں سیکورٹی ڈیوٹی کے لئے صرف 61 پولیس افسران اور اہلکار تعینات ہیں ۔

اس حوالے سے پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہر گیٹ پر پولیس اہلکاروں کی تعداد دسے بڑھا کر تین کردی گئی ہے جبکہ واک تھرو گیٹس کی خرابی سے ہائی کورٹ کو آگاہ کردیا ہے۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ہم نے انتظامیہ کو متعدد بار عدالتوں کے لئے پارکنگ کے لئے جگہ کی نشاندہی بھی کی ہے مگر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اور انتظامیہ کی نظر میں یا وکلاکی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے۔

وکلااس ملک کے معمار ہیں اور اس کے استحکام کے لئے کام بھی وکلاہی کرتے ہیں ۔وکلاء رہنماؤں نے مطالبہ کیا کہ کراچی کی عدالتوں کی سکیورٹی میں فوری اضافہ کیا جائے ۔کسی بھی سانحہ کے بعد سکیورٹی میں اضافہ ہوتا ہے جو وقت گذرنے کے ساتھ کم ہوجاتی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تمام سکیورٹی حکمرانوں اور اشرافیہ کے لیے مختص کردی گئی ہے

متعلقہ عنوان :