اٹارنی جنرل اہم ترین مقدمہ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کیس سپریم کورٹ نہیں سن سکتی‘سراج الحق

اگر یوسف رضا گیلانی کے بارے میں فیصلہ ہوسکتا ہے تو موجودہ وزیر اعظم کے بارے میں کیوں نہیں ہوسکتا،یہاں ہمیشہ حکومتی مفادات کو ریاستی مفادات سمجھا جاتا ہے‘امیر جماعت اسلامی

بدھ 22 فروری 2017 21:02

اٹارنی جنرل اہم ترین مقدمہ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں اور کہتے ..
اسلا م آباد / لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 22 فروری2017ء) امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کہا ہے کہ وزیر اعظم سمیت ارکان پارلیمنٹ پر آئین کی دفعہ 62/63کا اطلاق ضروری ہے ،اٹارنی جنرل اہم ترین مقدمہ کو کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں اور گنڈیریاں چوستے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ کیس سپریم کورٹ نہیں سن سکتی,اگر قومی اہمیت کے اس کیس کو سپریم کورٹ سننے کا اختیارنہیں رکھتی تو کیا لاہور کا کوئی تحصیلدار اس کا فیصلہ کرے گا, اداروں نے اپنی عزت خود گنوائی ہے اگر وہ اپنے فرائض ادا کرتے تو آج قوم کے سامنے سرخرو ہوتے اور عوام کی نظروں میں ان کا وقار ہوتا،اگر یوسف رضا گیلانی کے بارے میں فیصلہ ہوسکتا ہے تو موجودہ وزیر اعظم کے بارے میں کیوں نہیں ہوسکتا،یہاں ہمیشہ حکومتی مفادات کو ریاستی مفادات سمجھا جاتا ہے ،تمام ادارے دربار اور ’’وڈی سرکار‘‘کو بچانے میں لگ گئے ہیں،لیکن اب ان نا خدائوں سے سرکاری کشتی دلدل سے نہیں نکل سکتی ، پانامہ لیکس کیس سے بچنے کے لیے حکومت ایک اور این آر او کے چکر میں ہے اور وہ چاہتی ہے کہ پانامہ کیس لاہور کا کوئی تحصیل دار سنے، اب نہ این آراو ہو گا اور نہ ہی لاہور کا تحصیلدار یہ کیس سنے گا۔

(جاری ہے)

ان خیالات کا اظہار انہوں نے پانامہ کیس کی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے باہر میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔اس موقع پر نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر فرید احمد پراچہ ایڈووکیٹ بھی موجود تھے ۔سراج الحق نے کہا کہ قوم پانامہ کیس جیت چکی ہے ،پوری دنیا کو پتہ چل گیا ہے کہ وزراء اور سرکاری وکلاء کاجتھا وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کرنے میں ناکام رہا ہے ،نیب اور ایف بی آر کے متعلق پاکستان کی عدالت عظمیٰ کے ریمارکس کے بعد ان اداروںپر جو تھوڑا بہت اعتماد باقی تھا وہ بھی ختم ہوگیاہے اور قوم جان چکی ہے کہ اقتدار پر قابض رہنے والوں نے یہ ادارے ملک و قوم کے مفاد میں نہیں اپنی کرپشن چھپانے کیلئے بنا رکھے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ اٹارنی جنرل کا یہ کہنا کہ پانامہ کیس سپریم کورٹ سننے کی مجاز نہیں تضحیک آمیز اور سپریم کورٹ کی توہین کے مترادف ہے اگر کرپشن اور قومی دولت کی لوٹ مار کا سب بڑا کیس ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نہیں سن سکتی تو کیا اس کا فیصلہ لاہور کا کوئی تحصیلدار کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ پوری سرکاری مشینری اور ادارے وزیر اعظم اور ان کے خاندان کو بچانے میں لگی ہوئی ہے اور حکومتی مفاد کو یہاں ریاستی مفاد کا درجہ دے دیا جاتا ہے خواہ اس میں ریاستی مفادات کا قتل عام ہورہا ہو،یہی وجہ ہے کہ حکمران ٹولہ خود کو کسی کے سامنے جواب دہ نہیں سمجھتا اور چاہتا ہے کہ تمام سرکاری ادارے ان کے طواف میں لگے رہیں ،پانامہ کیس میں تمام ادارے دربار اور سرکار کو بچانے میں لگ گئے ہیں مگر دلدل میں پھنسی ہوئی سرکاری کشتی کو یہ سب مل کر بھی نکال نہیں سکتے اور انہیں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کا دفاع کرنے والے وزراء اور سرکاری اداروں کے عہد یداروں کو تنخواہ بھی قومی خزانے سے نہیں وزیر اعظم سے لینی چاہئے ۔انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی حکومتی وزیر کا صحافی کوچودہ سال جیل بھیجنے اور ان کو دھمکیاں دینے کی شدید مذمت کرتی ہے اور وزیر کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے جو لوگ عوام کا پیسہ چوری کرتے ہیں وارداتیں کرتے ہیں ان کو بچایا جاتا ہے اور صحافیوں کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں ہم صحافیوں کے ساتھ ہیں صحافیوں کی آزادی قوم کی آزادی ہے۔

صحافیوں کی آزادی کے بغیر کچھ نہیں ہے۔اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر فرید احمد پراچہ نے کہا کہ اب دادا پوتا پروگرام نہیں چلے گا،وزیر اعظم اور ان کے خاندان سمیت تمام لٹیروں کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا۔انہوںنے کہا کہ جماعت اسلامی پہلے دن سے احتساب سب کا نعرہ لگا رہی ہے ،ہم چاہتے ہیں کہ پانامہ لیکس میں آنے والے سب لٹیروں سے ان کی بے پناہ دولت کا حساب لیا جانا چاہئے ۔