Live Updates

دہشتگردی کی موجودہ لہر، قومی ایکشن پلان میں شامل نقطوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کو توسیع دینے والے اجلاسوں میں وزیر داخلہ و سیکرٹری کی مسلسل شمولیت نہ کرکے غیرسنجیدگی کا رویہ ملک کے لیئے بڑے نقصان کا باعث بنا ہے ،ا کا سب سے بڑا نقصان صرف سندھ کو اٹھانا پڑا

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی تحریک انصاف کے رہنما راجہ خان جکھرانی کے بیٹے کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو

ہفتہ 18 فروری 2017 22:10

�یکب آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 18 فروری2017ء) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے کہا ہے کہ دہشتگردی کی موجودہ لہر، قومی ایکشن پلان میں شامل نقطوں پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کو توسیع دینے والے اجلاسوں میں وزیر داخلہ و سیکریٹری کی مسلسل شمولیت نہ کرکے غیرسنجیدگی کا رویہ ملک کے لیئے بڑے نقصان کا باعث بنا ہے، جس کا سب سے بڑا نقصان صرف سندھ کو اٹھانا پڑا ہے ۔

وہ ہفتہ کوجیکب آباد میں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی رہنما راجہ خان جکھرانی کے بیٹے کی وفات پر تعزیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کررہے تھے ۔، اس موقع پر پی پی ایم این اے اعجاز جکھرانی، صوبائی وزیر ممتاز حسین جکھرانی، فاروق خان جکھرانی، ڈپٹی کمشنر آغا شاہنواز بابر، ایس ایس پی ساجد کھوکھر اور دیگر موجود تھے، سید خورشیدشاہ نے مزید کہا کہ موجودہ دہشتگردی کی لہر اور اس سے قبل تعلیمی داروں سمیت دیگر مقامات پر ہونے والی دہشتگرد کاروائیوں کو قومی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ مرنے والا بھی مسلمان جبکہ مارنے والا بھی داڑہیوں والے نام نہاد مسلمان ہیں، ہماری جنگ کس سے ہے ،سن 65کی طرح پوری قوم کو یکجا ہوکر ان پوشیدہ دشمنوں سے نپٹنے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

پیپلز پارٹی کا واضح مؤقف رہا ہے کہ اس جنگ سے صرف ایک حکومت نہیں بلکہ عوامی مینڈٹ رکھنے والی تمام سیاسی جماعتوں کو کام کرنے کی ضرورت ہے، ن لیگ کی حکومت سے جب سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے جب فوجی عدالتوں کواختیاردینے کا مطالبہ کیا تھا تو سب سے پہلے پیپلز پارٹی نے تائید کی جس پر ہمیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ فوجی عدالتوں کے ساتھ بیس نقطوں پر مشتمل نیشنل ایکشن پلان بنا لیکن ان نکتوں میں سے بیشتر پر عمل نہیں ہوا جس کا اعتراف اس وقت کے آرمی چیف اور کئی مقامات پر تو وزیر اعظم نواز شریف نے خود کیا، لیکن عمل نہ کرنے کی ذمیداری وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے، صوبوں کا عمل کرانا بس کی بات نہیں ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشتگردی کے خلاف پارلیامنٹرین کمیٹی بنانے کاوعدہ کرنے کے باوجود پورا نہیں کیا گیا جس کی معلومات ہم نے حکومت تک پہنچائی لیکن کوئی عمل نہیں ہوا، اب بھی آرمی نے حکومت سے فوجی عدالتوں کے قیام میں تین سال تک کی توسیع کا مطالبہ کیا ہے جس پر ہم نے حکومت کو کہا ہے کہ وہ آکر بریفنگ دے، اس سلسلے میں 6سے زائد میٹنگ ہوچکی ہیں، لیکن جس وزارت کا کام ہے، وہ وزیر آتا ہے نہیں سیکریٹری آکر کامیابی اور ناکامیوں کے متعلق بریفنگ دیتا ہے، جہاں ایسی غیر سنجیدگی کا رویہ ہوگا وہاں ایسے بڑے نقصانات ہوتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کئی بار بحث کرچکے ہیں کہ پنجاب میں دہشتگردی کی بڑی نرسریاں موجود ہیںجہاں دہشتگردوں کے لیئے محفوظ پناہ گاہیں بھی موجود ہیںاور انہیں مدد ملتی ہے ، جہاں ایسی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جن پر پابندیاں ڈالی گئی ہیں اور حکومتی نمائندوں کی ان سے ملاقاتوں و روابط کا نہ صرف سلسلہ جاری ہے بلکہ انہیں انتخابات میں حصہ لینے کے مواقع دینا قابل تشویش ہے، پھر حکومت کیسے نیشنل ایکشن پلان پر عمل کراسکے گی۔

انہوں نے کہا کہ اس خطے میں اسلام کو صوفیائے کرام نے پھیلایا ہے اور صوفیائے کرام کی مزارات پر حملے قابل مذمت اور افسوس ناک ہیں، اس لیئے دہشتگردی کے معاملے کو قومی پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے کہ دو سالوں کے دوران ہم ایسے عمل کو کیوں نہیں روک سکے ہیں، بہت سارے سوالات قوم کے ذہنوں میں موجود ہیں۔مختلف سوالوں کے جواب میں خورشید شاہ نے کہا کہ ملک میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کے بعد وزارت داخلہ کہیں نظر نہیں آتی، سیہون میں بھی وزیر داخلہ وزیر اعظم کے ساتھ آئے ، ہم سمجھتے ہیں کہ سیکیورٹی رسک کی وجہ سے وزیر اعظم سے واردات تک جانے نہ جانے کے لیئے پابند تھے لیکن وزیر داخلہ 5کلومیٹر کا مفاصلہ طئے کرکے نہیں آسکے اور آکر متاثرین کو تسلی دیتے اور عوام سے ملتے۔

انہوں نے کہا کہ اپنی جان پر کھیل کر دہشتگردی کرنے والوں کو سینکڑوں پولیس اور رینجرز کے اہلکار بھی نہیں روک سکتے واقعہ کے بعد ہمیں حفاظتی کمزوریوں پر تنقید کرنے کے بجائے ان دہشتگردوں کے ٹھکانوں کو ختم کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نواز شریف اپنے دور حکومت میں عوام سے کیئے گئے ایک بھی وعدے کو پورا نہیں کر سکے ہیں، ان کا روٹی پروگرام، دانش اسکول پروگرام ختم ہونگے ، ہیلتھ پروگرام کی ناکامی پوری قوم کے سامنے ہے، باقی قرضوں پر سڑکوں اور بجلی منصوبوں کی تعمیر سے ملک مقروض ہوگا۔

کل جو بچہ ان کی حکومت کے قیام کے دوران 65ہزار کا مقروض تھا آج وہ جوان ہوکر ایک سؤ سات لاکھ کا مقروض ہوچکا ہے، قرض اور بھیک مانگ کر ترقی کے دعوے جھوٹے ہیں خوشحالی تو تب ہے جب غریب کے پیٹ میں روٹی ہوگی، پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کسان، مزدور، غریب اور چھوٹے ملازمین خوشحال تھے، تنخواہیں اور پینشن ڈبل کی گئیں، جوکہ خوشحالی کی طرح قدم تھا۔

بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کو بہت کچھ ملا، کسانوں کی فصل کی قیمتیں بڑھائی گئیںتھیں اور کئی ملازمتیں دی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ تین فیصد ملازمتوں سے لاکھوں نوجوانوں کو کیسے روزگار سے لگایا جاسکتا ہے، لیکن نواز شریف کچھ تو بتائے کہ اس نے نچلے طبقے کو کیا دیا ہے ملازمت تک نہیں دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ دہشتگردی کی صورتحال میں دنیا ہمارے ملک میں معاشی واقتصاد ی ترقی کے لیئے کیسے آئیں گے، وفاق سے پنجاب کو ملنے والے مالی حصہ کے برابر کسی اور صوبے کو نہیں مل رہا ہے۔

سی پیک منصوبے کے تحت سندھ کو ریلوے اور سڑکوں کی تعمیر میں حقوق نہیں ملا ہے، سندھ میں ایک بھی موٹر وے موجود نہیں ہے، ہم نے پانچ سالہ دور حکومت میں صحت، تعلیم سمیت بیشتر ترقیاتی منصوبے دیئے جبکہ ہزاروں نوجوانوں کو ملازمت دیکر روزگار فراہم کیا جس کا رکارڈ عوام کے سامنے موجود ہے۔۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیو ہن میں ہونے والے دھماکے کی وجہ سے انسانی اعضاء اڑ کر باہر نالوں میں گرے ہیں میں نے بات کی ہے باقی اس میں نہ تو سندھ اور نہ وفاقی حکومت کی کوئی کوتاہی ہے۔
Live پاکستان تحریک انصاف سے متعلق تازہ ترین معلومات