بلوچستان کے عوام مختلف حوالوں سے عدم تحفظ کی صورتحال سے گزررہے ہیں،سیاسی ومذہبی رہنما

اگر غیر ملکی مردم شماری شامل ہوگئے میں تو بلوچستان کے مقامی بلوچ اور پشتون اور دیگر برادری کی ڈیمو گرافی میں تبدیلیرونماں ہو گی،محکمہ شماریات وفاق اور دیگر متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں تاکہ غیرملکیوںکی شمولیت کی روکا جا سکے،قومی یکجہتی جرگہ سے خطاب

ہفتہ 18 فروری 2017 23:02

کوئٹہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 18 فروری2017ء) بلوچستان کی سیاسی ومذہبی جماعتوں کے رہنمائوں اور قبائلی عمائدین نے کہا بلوچستان کے عوام مختلف حوالوں سے عدم تحفظ کی صورتحال سے گزررہے ہیں حالیہ مردم شماری میں قوی امکان ہے کہ غیر ملکی افراد کی شمولیت ہو گی ان کی نشا ند ہی نہیں کی گئی اور وہ حالیہ مردم شماری میں شامل کئے گئے تو بلوچستان کے مقامی بلوچ اور پشتون اور دیگر برادری کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی غیر ملکی افراد کیلئے محکمہ شماریات وفاق اور دیگر متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں تاکہ ان کی شمولیت کی روکا جا سکے گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان کے کئی اضلاع میں مخدوش اور خراب امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے کثیر تعداد میں لو گوں نے اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ان کی شمولیت مردم شماری میں یقینی بنائی جائے اور ان کو واپس اپنے آبائی علاقوںمیں دوبارہ بسانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گزشتہ خانہ شماری میں اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف دیگر ملازمین نے عدم تحفظ کی بناء پر بائیکاٹ کیا تھا بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں عوام تک رسائی کیلئے اور ان کے نام مردم شماری میں شامل کر نے کے لئے وفاقی حکومت، محکمہ شماریات ودیگر ادارے متبادل حکمت عملی وضع کریں تاکہ ان اضلاع کے مقامی افراد کے اندراج کو یقینی بنایا جا سکے ان خیالات کا اظہار سیاسی وقبائلی رہنماء حاجی لشکری رئیسانی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر جان مینگل، اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی،نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی نائب صدر سید احسان شاہ، جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے قائمقام امیر مولانا عبدالقادر لونی، مسلم لیگ(ن) کے رہنماء رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کر د گیلو، نیشنل پارٹی حئی کے سر براہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخونذادہ ،ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزار، سابق نگراں وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی، پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ، سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی، سابق صوبائی وزیر میر شاہنواز مری، جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنماء نوراللہ وطن دوست، قاری مہراللہ، حاجی نواز کاکڑ، عبدالواحد بازئی، یوسف خان کاکڑ، سردارحیات خان با دینی، تحریک انصاف کے رہنماء نوابزادہ ہمایون جو گیزئی، میر عبدالقدوس ساسولی، سپریم کورٹ کے وکیل ملک امین اللہ کاکڑ، ملک عبدالولی کاکڑ، علامہ ہاشم موسوی ، سردار کمال خان بنگلزئی، ملک قیوم کاکڑ، ساجد ترین، ظاہر شاہ، بابر موسیٰ خیل، میٹرو پولٹین کے اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم کاکڑسمیت دیگر مقررین نے بھی سراوان ہائوس میں قومی یکجہتی سے خطاب کر تے ہوئے کیا اس موقع پر آغا حسن بلوچ ، خیر جان بلوچ اور ربانی کاکڑ نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض سرانجام دیئے اس کے علاوہ دیگر سیاسی وقبائلی عمائدین بھی موجود تھے حاجی لشکری رئیسانی نے جر گے کے اعلامیہ کو جاری کر تے ہوئے کہا کہ قومی یکجہتی جرگہ کا انعقاد انتہائی تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس کے دورس مثبت نتائج برآمد ہونگے وقت اور حالات کی نزاکت کا تقاضہ ہے کہ اہل بلوچستان یکجہتی کا مظاہرہ کریں تاریخ بتاتی ہے کہ جن قوموں نے صلا ومشاورت سے قومی مسائل پر مشترکہ حکمت عملی بنا کر لائحہ عمل مرتب کی تو وہ کامیاب وکامران ہوئے اور تاریخ کے اوراک میں انہیں گراں قدر الفاظ میں یاد کیا جا تا ہی18 فروری کو مردم شماری کے سلسلے میں قومی یکجہتی جر گہ میں ژوب سے لے کر گوادر تک سیاسی جماعتوں، بلوچ وپشتون، قبائلی عمائدین ودیگر برادری کی شرکت اس بات کی غمازی کر تا ہے کہ بلوچستان کے عوام اہم مسائل پر مشترکہ سوچ وفکر اور حکمت عملی پر بھر پور یقین رکھتے ہیں اور انہیں اپنی تاریخی ذمہ داری کا شدید احساس وادراک ہے یہ ایک نا قابل تردید تاریخ حقیقت ہے کہ پاکستان کثیر القومی، کثیر الثقافتی اور کثیر اللسانی وفاق ہے وفاق پاکستان کے دستوری ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست میں موجود قو میتوں کی شناخت اور ڈیمو گرافی کا تحفظ کرے اور کسی بھی ایسے عمل سے گریز کرے جس سے قومیتوں کی شناخت اور حیثیت کو خطرہ لاحق ہو گزشتہ تین دہائیوں سے غیر ملکی افراد کا پاکستان مسکن رہا ہے ان کے قیام سے سنگین سیاسی ، معاشرتی اور معاشی مسائل سے جنم لیا ہے اور پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام مختلف حوالوں سے عدم تحفظ کی صورتحال سے گزررہے ہیں حالیہ مردم شماری میں قوی امکان ہے کہ غیر ملکی افراد کی شمولیت ہو گی ان کی نشا ند ہی نہیں کی گئی اور وہ حالیہ مردم شماری میں شامل کئے گئے تو بلوچستان کے مقامی بلوچ اور پشتون اور دیگر برادری کی ڈیمو گرافی میں تبدیلی وقوع پذیر ہو گی جرگہ مطالبہ کر تی ہے کہ غیر ملکی افراد کیلئے محکمہ شماریات وفاق اور دیگر متعلقہ ادارے ایسے اقدامات کریں تاکہ ان کی شمولیت کی روکا جا سکے گزشتہ کئی عرصے سے بلوچستان کے کئی اضلاع میں مخدوش اور خراب امن وامان کی صورتحال کی وجہ سے کثیر تعداد میں لو گوں نے اپنے آبائی علاقوں سے نقل مکانی کر چکے ہیں ان کی شمولیت مردم شماری میں یقینی بنائی جائے اور ان کو واپس اپنے آبائی علاقوں دوبارہ بسانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گزشتہ خانہ شماری میں اساتذہ، پیرا میڈیکل اسٹاف دیگر ملازمین نے عدم تحفظ کی بناء پر بائیکاٹ کیا تھا بلوچستان میں دور دراز علاقوں میں عوام تک رسائی کیلئے اور ان کے نام مردم شماری میں شامل کر نے کے لئے وفاقی حکومت، محکمہ شماریات ودیگر ادارے متبادل حکمت عملی وضع کریں تاکہ ان اضلاع کے مقامی افراد کے اندراج کو یقینی بنایا جا سکے جرگہ یہ سمجھتی ہے کہ صاف وشفاف اور غیر متنازعہ مردم شماری کیلئے ضروری ہے کہ مردم شماری سے قبل وفاقی حکومت درج بالا تحفظات اور خدشات کا تدارک کرے اور ان کے حل کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں اگر مردم شماری سے قبل ارباب اقتدار واختیار نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا تو ممکنہ مردم شماری نہ صرف متنازعہ ہوگا بلکہ وفاق کیلئے ایک سنگین بحران پیدا کر نے کا سبب ہو گا جس کے انتہا ئی منفی اثرات مستقبل میں پیدا ہونگے اور اس کے ذمہ داری حکمران ہونگے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر جان مینگل نے کہا کہ خوش قسمتی ہے کہ اس جر گے میں بلوچستان کے کونے کونے سے سیاسی لوگ ، قبائلی عمائدین مجھ جیسے سابق وزیراعلیٰ شریک ہیں اور موجودہ بھی ہو تا تو مزہ کچھ اور ہو تا قدرت کی سرد ہوائیں چل رہی ہے ریاست کی گرم ہوائیں سے بچھنا ہو گا مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر تا لیکن مردم شماری کے حوالے سے جو طریقہ کار ہے ان کی ضرورت ہو تی ہے ملک میں مردم شماری ہو تی ہے تو تعلیم، صحت اور دیگر ضروریات زندگی کو مد نظر رکھتے ہیں مگر بد قسمتی سے ملک میں15 سالوں سے ایوانوں اور عدالتوں میں چیخ چیخ کر کے گمشدگی کے تعدادکے بارے میں بتائے کر تے ہیں لیکن کوئی اس کے تعداد نہیں بتا تے جن کے بچے گم ہے حکومت اور کمیشن کہتے ہیں کہ سینکڑوں میں ہے لیکن جن کے بچے لاپتہ ہے وہ تعداد ہزاروں میں بتا تے ہیں ذمہ دار لوگ کہتے ہیں کہ جو گم شدہ ہے وہ افغانستان ، انڈیا یا جنت میں ہے ہمیں تو جلے ہوئے گائوں کا حساب بھی نہیں بتا تے 15 سالوں میں کتنے گھروں کو جلائے گئے جواب دینے والے اتنے بااختیار اور طاقتور ہے کہ ہم ان کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے دنیا ئی حقائق سے انکار نہیں کر سکتے یہاں کے وسائل کی تقسیم ترقی کی رفتار کا تعین مردم شماری سے کیا جا تا ہے جو طاقتور ہو گا وہ اپنے لئے سب سے زیادہ مال رکھتے ہیں پنجاب 1947 سے 1971 تک ملک کو اس لئے ون یونٹ بنایا کیونکہ ہم اس وقت بلوچ، پشتون، سندھی، ہزارہ نہیں تھے سب کو اس لئے اکھٹا کیا گیا کہ بنگلہ دیش کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کر نے کے کوشش کریں بلوچستان میں مجموعی طور پر مردم شماری کے حوالے سے بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے پہلے بھی مردم شماری ہو چکی ہے 1998 میں مردم شماری ہوئی پشتون بلوچ روایات کے برعکس جو استقبال کیا گیا وہ اس کا اندازہ کوئی نہیں کر سکتا ہم شروع دن سے یہی مطالبہ کرتے ہیں کہ غیر ملکیوں کا اندراج نہ کیا جائے اس وقت بھی قصور یہی تھا جس پر کچھ عناصر نے احتجاج کیا اگر اس حالت میں مردم شماری کرائی گئی تو یہ اجتماعی خودکشی ہو گی انہوں نے کہا کہ2005 سے صوبے میں پانچواں آپریشن کیا گیا جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ نقل مکانی کر گئے آواران میں انتخابات کے دوران 20 ہزار ووٹ کاسٹ ہو تے تھی2013 کے انتخابات میں صرف500 ووٹ کاسٹ ہوئے اور الیکشن کمیشن کے سامنے 25 ووٹ سامنے آئے جس پر ایم پی اے منتخب ہوا ڈپٹی اسپیکر بھی بنا اور قائمقام اسپیکر بھی بنا مردم شماری اور انتخابات میں فر ق ہو تا ہے سرکاری فورسز کی نگرانی میں ووٹ کاسٹ ہو تا ہے مردم شماری کا طریقہ کار انتخابات سے مختلف ہو تا ہے مردم شماری کے دوران گھر گھر جانا ہو تا ہے دنیا وی قوانین میں معذوروں کے لئے الگ کالم ہو تا ہے یہاں پر بد قسمتی سے صحت مند کے لئے الگ کالم نہیں ہو تا تو معذوروں کی کیا حیثیت ہو گی انہوں نے کہا کہ سی پیک کے کانوائے سڑک میں کرفیولگا کر فورسز کی نگرانی میں ژوب سے گوادر تک کانوائے لے جایا گیا مردم شمار اور خانہ ہی نہیں جبکہ کسی علاقے میں مردم نہ ہو تو وہاں کیا مردم شماری ہو گی کچھ گھر آپ لو گوں نے گرائیں تو کچھ زلزلے سے گر گئے بلوچستان کے مختلف علاقوں کیچ، پنجگور، ڈیرہ بگٹی، قلات، بولان سمیت دیگر علاقوں سے چالیس فیصد آبادی نقل مکانی کر چکی ہے جو شورش ہے ان کا خاتمہ نہیں کیا جا تا شورش کا خاتمہ آپریشن یا گن شپ ہیلی کاپٹر سے نہیں بلکہ سیاسی طور پر ختم کرنا ہو گا جب سے بلوچستان میں شورش ہوئی ہے کسی نے سیاسی طور پر حل کر نے کی کوشش نہیں کی 4 سیٹیں ملنے سے مسئلہ حل نہیںہوگا بلوچستان اور افغانستان کے قریبی تعلقات اور رشتے ہیں یہ رشتے چند وزارتوں اور ممبر شپ کے محتاج نہیں ہے جب بلوچستان میں حالات خراب تھے تو ہمارے اکابرین نے افغانستان میںپنا ہ لی ہم فخر کر تے ہیں بلوچ بھی مہا جر کی حیثیت افغانستان میں آباد ہے جب یہاں حالات بہتر ہوئے تو وہ واپس آئے بلوچستان سے افغانستان کی حالت قدرے بہتر ہے وہاں پر مسجدوں، امام بارگاہوں میں دھماکے نہیں ہو رہے یہاں پر تو کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ہے یو این ایچ سی آر کے مطابق 1978 میں مہا جرین کے آمد کا سلسلہ شروع ہوا پہلی21 ہزار مہا جرین بلوچستان میں آباد ہوئے یہ سلسلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا 1 لاکھ 93 ہزار پھر3 لاکھ86 ہزار تک پہنچے ماہانہ 10 ہزار کے مہا جرین کا اضافہ ہو تا گیا دسمبر1980 میں14 لاکھ17 ہزار تک پہنچے پھر ماہانہ ایک لاکھ مہا جرین کا یہاں آنا شروع ہو گیا اور پھر یہ آبادی بڑھتی بڑھتی چالیس لاکھ تک پہنچ گئی انہوں نے کہا کہ دو برادر قومیں صدیوں سے آباد ہے جن کو کوئی بھی الگ نہیں کر سکتا کچھ عناصر اسمبلیوں کی سیٹوں میں اضافے کی خاطر اور اپنا اجاداری کو تقویت دینے کے لئے مردم شماری میں مہا جرین کا اندراج کر رہے ہیں اگر خدنخواستہ برادر اقوام کے درمیان تقسیم کا فیصلہ کیا گیا تو بیٹھ کر جرگے کے ذریعے فیصلہ کرینگے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے کہا کہ مردم شماری ہر حال میں ہونی چا ہئے کسی کو بھی اس مسئلے پر انا کا مسئلہ نہ بنائے تمام چیزوں پر سنجیدگی سے غور کر نا چا ہئے مردم شماری کو متنازعہ نہ بنایا جائے ہم خود مختار نہیں ہے مہا جرین کے حوالے سے بین الاقوامی پالیسی پر حکمران فیصلہ کرینگے جب تک اسٹیبلشمنٹ اپنے فیصلے تبدیل نہیں کرینگے تو ہم اپنے فیصلوں میں کبھی بھی خود مختار نہیں ہونگے حالات سے آگاہی اورحالات کے تناظر میں کردار ادا کر نا ہو گا اگر سارے مہا جر بھی شامل ہوجائے تو وفاق سے زیادہ فائدہ حاصل کرینگے ترقی رقبے کے لحاظ سے منتشر آبادی اور پسماندگی ٹیکس ومساوات کی بنیاد پر دیئے جا تے ہیں اس لئے اس مسئلے پر غور وفکر کرنا ہو گا نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں پہلے اس طرح جر گہ نہیں دیکھا آج جس مسئلے پر جرگے کو بلایا گیا ہے وہ انتہائی اہم ایشو ہے آج کے قائدین کے تقاریر سے حوصلہ افزائی ہو ئی ہے جو بلوچستان کے خلاف سازش کر ے گا اس کے خلاف متحد ہو کر لڑنا ہو گا جر گہ جو بھی فیصلہ کرے نیشنل پارٹی بھر پور حمایت کرے گی تمام تارکین وطن کو واپس بھیجا جائے اور بلوچ آئی ڈی پیز کو فوری طور پر آباد کیا جائے کچھ بلوچ اضلاع میں حالات خراب ہے اب بھی حالات ٹھیک نہیں ہے بلوچستان ہمارا تاریخ وطن ہے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کے مرکزی نائب صدر سید احسان شاہ نے کہا کہ جر گے نے مردم شماری کے حوالے سے جر گہ بلا کر قومی فریضہ ادا کیا پنڈال سے اعلامیہ جاری ہو تا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے قراردادوں کی طرح جر گے کے اعلامیہ کو سرد خانے میں نہ ڈالا جائے بی این پی عوامی مردم شماری کی مخالف نہیں ملک میں مر دم شماری ہونی چاہئے ایسا نہ ہو کہ مردم شماری مزید مسائل پید کرے صوبے کا حق نہیں دیا جا رہا ایک سیاسی کی دعوت پر وزیراعظم پشین آرہے ہیں وہ مردم شماری کے حق میں دلائل دینگے مشکل مسئلہ نہیں لیکن حکمرانوں کے عزائم ٹھیک ہو حکمران مردم شماری اپنے مرضی سے کر اتے ہیں کسی ایک مہاجر کے خلاف نہیں بلکہ جو بھی تارکین وطن ہے بی این پی عوامی ان کے خلاف ہے کچھ سیاسی جماعتیں اپنی ذاتی عناد کے لئے منفی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ بلوچ علاقوں سے آپریشن کی وجہ سے نقل مکانی کر نے والے لو گوں کو واپس بلایا جائے اور ان کو مردم شماری میں شامل کیا جائے بلوچستان کے مجموعی امن وامان کی صورتحال خراب ہے ایسے حالات میں مردم شماری کیسے ہو گی صوبائی حکومت نے ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی جو لوگ معائنہ کر نے گئے تھے ان کی لاشیں ملی اس حالت میںمردم شماری کیسے ممکن ہے جمعیت علماء اسلام نظریاتی کے قائمقام امیر مولانا عبدالقادر لونی نے کہا کہ بلوچستان امتحانات سے گزر رہے ہیںدنیا کر چکے ہیں لیکن اہل بلوچستان دن بدن مایو س ہو تے جا رہے ہیں ہمیں مایوسی کے سواکچھ نہیں ملا ہمارے وسائل ہم پر نہیں بلکہ کسی اور پر خرچ ہو رہے ہیںجمعیت علماء اسلام نظریاتی مردم شماری میں غیر ملکیوں کو کسی بھی صورت شامل نہیں کرینگے مردم شماری اہم ایشو ہے پشتون وبلوچ کا تنازعہ نہیں ہو نا چا ہئے 98 میں مردم شماری سے بائیکاٹ کی وجہ سے جو نقصان اٹھا رہے ہیں وہ آج بھی پورا نہیں ہوا یہ نہ سوچ لیں کہ مردم شماری کا بائیکاٹ کریں غیر ملکیوں کومردم شماری سے دور کیا جائے اپنے مفادات میں کسی بھی غیر ملکی کو شریک نہیں کرینگے سب سے زیادہ نقصان پشتونوں کا ہو رہا ہے سی پیک ، سیندک اور ریکوڈک جیسے منصوبوں پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا رکن صوبائی اسمبلی میر عاصم کر د گیلو نے کہا کہ بلوچستان میں مردم شماری سے کوئی انکار نہیں کر رہے تا ہم چالیس لاکھ افغان مہا جرین کو فوری طور پر وطن واپس بھیجا جائے 19 سال سے مردم شماری نہیں ہوئی تو ایک دوسال مزید مردم شماری کو ملتوی کر کے انتظار کیا جائے جن لو گوں نے مردم شماری کا بائیکاٹ کیا گیا اس کانقصان ہمیں اٹھانا پڑ ھ رہا ہے نیشنل پارٹی (حئی) گروپ کے سربراہ اور بلوچ قوم پرست ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا کہ ملک اور خاص طور پربلوچستان میں غیر جمہوری قوتوں کا مسلط کر دہ نظام یہاں کے عوام پر مسلط ہے ہم کل بھی اختیار تھے اور آج بھی بے اختیار تھے وفاق کا صرف نام ہے یہاں جمہوریت بھی برائے نام ہے جو اسمبلیاں وجود رکھتی ہے وہ بھی بے اختیار ہے بلوچ عوام کو کسی بھی صورت اقلیت میں تبدیل نہیں ہونے دینگے وفاق آج بھی ہمارے وسائل پر قابض ہے سی پیک کا منصوبہ ہو یا دیگر میگا پروجیکٹس ہمارے خلاف ہر طرف سے ساز ہو رہی ہے کہ بلوچستان کو کس طرح ختم کر نا ہو گا افغان مہا جرین کو چالیس سے برداشت کیا اب ان کو واپس وطن جانا چا ہئے جماعت اسلامی کے سابق صوبائی امیر عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ سیاست کیو ں خوف میں مبتلا ہو تا ہے معاشرے میں بالادست لوگ ہے وہ سارے معاملات کو چلاتے ہیںہم کیسے جمہوری لو گ کہ مردم شماری پر کیو ں اتفاق نہیں ہو تا سپریم کورٹ کے حکم پر بلدیاتی انتخابات میں لیکن اختیارات نہیں دیئے مردم شماری کو اچھے ماحول میں ہونی چاہئے ماضی میں ایک قوم پرست جماعت نے بائیکاٹ کر کے صوبے کے عوام نے جو نقصان اٹھایا وہ ہمارے لئے قابل افسوس ہے ہزارہ ڈیمو کریٹک پارٹی کے چیئرمین عبدالخالق ہزارہ نے کہا کہ جس سر زمین پر آباد ہے دنیا کی نظریں بلوچستان پر لگی ہوئی ہے غیر ملکی کمپنیاں یہاں سر مایہ کاری کر نے کے حق میں سویت یونین کو گرم پانی کے لئے مختلف راستے تلاش کر رہے ہیں سی پیک پر بلوچستان کو نظرانداز کیا گیا دوریوں کو ختم کر نا ہو گا مردم شماری پر جو خدشات وتحفظات ہے ان کو دور کر نا چا ہئے دنیا نے ترقی کر لی ہم اب بھی مایوسی کے عالم میں ہے سابق نگران وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی نے کہا کہ ہمارے رسم رواج ایک جیسے ہیں اور صدیوں سے آباد ہے مردم شماری پر جو تحفظات ہے اس تحفظات کو ختم کر نا ہو گا بلوچستان کو1970 میں شناخت ملا کس طریقے سے آئے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا باہر کے دشمنوں نے ہمیں آپس میں دست وگریباں کیا تمام حالات اور واقعات کو مد نظر رکھ سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنماء بسم اللہ خان کاکڑ، سینیٹر نوابزادہ سیف اللہ مگسی، سابق صوبائی وزیر میر شاہنواز مری، جمہوری وطن پارٹی کے مرکزی رہنماء نوراللہ وطن دوست، قاری مہراللہ، حاجی نواز کاکڑ، عبدالواحد بازئی، یوسف خان کاکڑ، سردارحیات خان با دینی، تحریک انصاف کے رہنماء نوابزادہ ہمایون جو گیزئی، میر عبدالقدوس ساسولی، سپریم کورٹ کے وکیل ملک امین اللہ کاکڑ، ملک عبدالولی کاکڑ، علامہ ہاشم موسوی ، سردار کمال خان بنگلزئی، ملک قیوم کاکڑ، ساجد ترین، ظاہر شاہ، بابر موسیٰ خیل، میٹرو پولٹین کے اپوزیشن لیڈر عبدالرحیم کاکڑسمیت دیگرنے کہا کہ مہاجرین کے ہوتے ہوئے منصفانہ مردم شماری ممکن نہیںموجودہ صورتحال میں مردم شماری کرانا درست نہیںکچھ سیاسی جماعتیں مردم شماری کو متنازع بنارہی ہیںمردم شماری سے متعلق مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالنا چاہیے جرگے کے ذریعے میکنزم بناکر اداروں کے سامنے رکھا جائے بلوچ پشتون آباد میں بھائی ہیں،تفرقہ ڈالنے والے ناکام ہونگے مردم شماری سے متعلق چار نکات پرعمل کیاجائے افغان مہاجرین کو واپس بھیجا جائے نقل مکانی کرنیوالے بلوچوں کوواپس اپنے علاقوں میں آباد کیا جائے ووٹ کی لالچ کی خاطرغیرملکیوں کودستاویزات دیئے گئے ہیںپیسہ لیکرغیرملکیوں کو سرحد عبور کرانے کا کھیل بند ہونا چاہیے بہت سارے لوگوں کے ریکارڈمیں غیرمتعلقہ افراد شامل ہے الیکشن کے نتائج تبدیل ہوسکتے ہیں تو مردم شماری بھی ہائی جیک ہوسکتی ہے۔