لال شہباز قلندر کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے ، سندھ کے علاقے سیہون شریف میں مدفون ،ن کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ، شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ہم عصر، دہشتگردوں نے اس ہستی کے مزار کو بھی نہ بخشا

جمعرات 16 فروری 2017 23:18

لال شہباز قلندر  کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا، مشہور صوفی بزرگ، شاعر، ..
سیہون شریف (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 فروری2017ء) سیہون شریف میں جن کے مزار پردہشتگرد حملہ ہوا وہ سخی لال شہباز قلندر کے نام سے مشہور تھے ان کا اصل نام سید عثمان مروندی تھا جو سندھ میں مدفون ایک مشہور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا مزار سندھ کے علاقے سیہون شریف میں ہے۔ وہ ایک مشہور صوفی بزرگ، شاعر، فلسفی اور قلندر تھے۔ ان کا تعلق صوفی سلسلہ سہروردیہ سے تھا۔

ان کا زمانہ اولیائے کرام کا زمانہ مشہور ہے۔ مشہور بزرگ شیخ بہائو الدین زکریا ملتانی، شیخ فرید الدین گنج شکر، شمس تبریزی، جلال الدین رومی اور سید جلال الدین سرخ بخاری ان کے قریبا ہم عصر تھے۔ حضرت شیخ عثمان مروندی المعروف لال شہباز قلندر کا 571 واں عرس مبارک ہر برس شعبان کی اٹھارہ تاریخ سے سہیون شریف میںہوتاہے , سندھ کی تاریخ میں بالعموم اور پاک و ہند کی تاریخ میں بالخصوص عرس لال شہباز قلندر بہت بڑی ثقافتی , مذہبی اور سماجی سرگرمی ہے جس میں پانچ لاکھ سے زیادہ لوگ ہر سال شریک ہوتے ہیں , یہ عرس مبارک پاکستان بھر میں قلندری صوفی سلسلے سے وابستہ درویشوں اور فقیروں کے باہم میل ملاقات کا سبب بھی بنتا ہے۔

(جاری ہے)

حضرت شیخ عثمان مروندی کے آبا و اجداد بغداد سے ہجرت کرکے افغانستان کے علاقے مروند میں آباد ہوئے تھے اور ان کے والد محترم شیخ کبیرالدین سلسلہ سہروردیہ کے مشایخ میں شمار ہوتے تھے خود حضرت شیخ عثمان مروندی بھی سلسلہ سہروردیہ سے وابستہ تھے۔شیخ عثمان مروندی شہباز قلندر 1196 کے آس پاس افغانستان سے پاکستان آئے اور انہوں نے اس دوران سہیون میں قیام کیا اور یہ زمانہ محمود غزنوی اور شہاب الدین غوری کے خاندانوں کی حکمرانی کا زمانہ تھا۔

شیخ عثمان مروندی صاحب جذب و وجدان تھے اور انہوں نے سندھ میں قیام کے ساتھ ہی سندھ کی عوام کے درمیان محبت , امن ,آشتی , مل جل کر ر ہنے اور صلح کل کا پیغام عام کیا۔شیخ عثمان مروندی لال شہباز قلندر کو سندھ میں صوفیانہ شاعری , صوفی کلچر اور سندھ کو عدم تشدد کے راستے پر گامزن کرنے والے وہ صوفی تھے جن کی وجہ سے سندھی کلچر ایک واضح شکل وصورت اختیار کرپایا , ان کے شاگردوں میں مخدوم بلاول , شاہ لطیف بھٹائی اور سچل سرمست شامل تھے جن کے بنا سندھی ثقافت و صوفی شاعری کے خدوخال ترتیب نہیں پاسکتے تھے۔

شیخ عثمان مروندی رحمت اللہ علیہ نے 1214 کے درمیان ہی کسی سال ملتان , اچ شریف اور پاکپتن کا دورہ کیا اور اس دوران اپنے زمانے کے تین بڑے ہم عصر صوفیوں سے ملاقات کی جن حضرت سید جلال بخاری اچ شریف . حضرت بہائوا لدین زکریا ملتانی اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکر شامل ہیں اور یہ ملاقات بعد ازاں گہری دوستی میں بدل گئی۔شیخ عثمان مروندی اکثر سرخ لباس زیب تن کیے رکھتے تھے , جس کی وجہ سے ان کا نام لال شہباز قلندر پڑگیا۔

صوفی کلچر پاک و ہند کے اندربقائے باہمی کا ایک ایسا معاہدہ عمرانی ہے جس نے پاک و ہند کے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کی وجہ بنا ہوا ہے۔ معروف ماہر تعمیرات سہیل بھیانوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ وادی سندھ ہو یا وادی گنگ و جمنان دونوں وادیوں میں تصوف نے علامات , امیجز اور کیلی گرافی کے ساتھ کام لیتے ہوئے کٹھ ملائیت کا مقابلہ کیا اور عوامی بولی کے اندر لوگوں کو خدا کے قریب کیا اور وہ سندھو وادی میں لال شہباز قلندر کو اس حوالے سے بذات خود ایک نئے مکتب کی بنیاد رکھنے والا بتاتے ہیں اور اسی بات کو رضا رومی معروف کالمسٹ بھی اپنے ایک مضمون میں بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ لال شہباز قلندر بجا طور پر سندھ وادی کے اندر صلح کلیت کو عروج پر لے جانے والے صوفی کے طور پر سامنے آئے۔

متعلقہ عنوان :