قومی اسمبلی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کا اجلاس ، کمیٹی نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی منصوبوں کے حوالے سے تجاویز کی منظوری دے دی

وزارت پانی وبجلی اورذیلی اداروں کے ترقیاتی بجٹ کا جائزہ،حکام کی طرف سے بجلی اور پان کے جاری منصوبوں اور ان پر آنے والے اخراجات پر بریفنگ پی ایس ڈی پی سیکٹر میں منصوبوں کیلئے ہم نے فنڈنگ کی ہے جس میں آر ایل این جی کے منصوبے،دیا میر باشا ڈیم بھی اسی میں شامل ہے ، عابد شیر علی پاکستان میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے ہمارا پانی سٹور نہیں ہوتا پانی کی یو ٹالئیزیشن بھی نہیں ہوتی-صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے،وزیر مملکت کا کمیٹی میں اعتراف پانی کے منصوبوں کیلئے وفاقی ترقیاتی بجٹ بہت کم ہے، بجٹ پہلی70 ارب روپے ہوتا تھا، اب31 ارب روپے ملتا ہے، آیندہ مالی سال پانی کے منصوبوں کیلئے 150ارب روپے کی ضرورت ہے، سیکرٹری پانی و بجلی اتنا بجٹ تو وزارت کا نہیں ہے،جتنا آپ صرف پانی کے منصوبوں کیلئے مانگ رہے ہیں، چیئرمین کمیٹی آ ئندہ مالی سال کے لئے ہمیںسات ارب روپے کی ضرورت ہے،سیپکو حکام گزشتہ سال 1598ملین روپے ما نگے تھے۔آ ئندہ مالی سال کے لئے 1.4ارب کی ڈیمانڈ کی ہے،لیسکو حکام کچھی کینال کے منصوبے کی لاگت 57 ارب روپے سے بڑھا کر 80ارب روپے کرنے کی تجویز ہے، واپڈا حکام کینجر جھیل تک 1000 کیوسک لاسز ہیں اور ٹوکن کے طور پر 1000 ملین کی ڈیمانڈ کی ہے منچر جھیل کا لنک بھی دریا سے ختم ہو گیا ہے، چیف انجینئر سندھ ایریگیشن صوبے میں چار سکیم ہیں جس کی لاگت 46 بلین روپے ہے نئے سکیمز کے لئے کے پی 127 بلین کی ڈیمانڈ ہے، کے پی حکام

بدھ 15 فروری 2017 21:53

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 15 فروری2017ء) قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی کے اجلاس میں آیندہ مالی سال کیلئے وزارت پانی وبجلی اورذیلی اداروں کے ترقیاتی بجٹ کا جائزہ لیا گیا۔ حکام کی طرف سے بجلی اور پان کے جاری منصوبوں اور ان پر آنے والے اخراجات پر بریفنگ دی گئی وفاقی وزیر پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ پی ایس ڈی پی سیکٹر میں منصوبوں کیلئے ہم نے فنڈنگ کی ہے جس میں آر ایل این جی کے منصوبے بھی شامل ہیںدیا میر باشا ڈیم بھی اسی میں شامل ہے وفاق اریگیشن سیکٹر کیلئے جتنا بھی کردار ادا کر سکتی ہے کرے گی عابد شیر علی نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں پانی کا ضیاع ہوتا ہے ہمارا پانی سٹور نہیں ہوتا پانی کی یو ٹالئیزیشن بھی نہیں ہوتی-صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جتنا پانی زیادہ ہوگا ہماری فصلیں بہتر ہوں گی اور پاکستان خوشحال ہو گاجو منصوبے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اس کا احتساب ہونا چاہئے اور جن کنٹریکٹر کو منصوبوں کے ٹھیکے دئے جاتے ہیں تاخیر کے شکار کی صورت میں ان کا بھی احتساب ہونا چاہئے اس کیلئے سزائیں بھی ہونی چاہئے کیونکہ عوام کا پیسہ ضائع ہو جاتا ہے پی ایس ڈی پی سیکٹر میں منصوبوں کیلئے ہم نے فنڈنگ کی ہے جس میں آر ایل این جی کے منصوبے بھی شامل ہیں-دیا میر باشا ڈیم بھی اسی میں شامل ہے وفاق اریگیشن سیکٹر کیلئے جتنا بھی کردار ادا کر سکتی ہے کرے گی عابد شیر علی کا پاکستان میں پانی کے ضیاع کا اقرار ہمارا پانی سٹور نہیں ہوتا- پانی کی یو ٹالئیزیشن بھی نہیں ہوتی-صوبائی حکومتوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے جتنا پانی زیادہ ہوگا ہماری فصلیں بہتر ہوں گی اور پاکستان خوشحال ہو گا کمیٹی کا اجلاس بھ کو پارلیمنٹ ہاوس میں چئیرمین کمیٹی ارشد خان لگاری کی زیر صدارت منعقد ہوا ایڈیشنل سیکرٹری پانی و بجلی نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ پانی کے منصوبوں کیلئے وفاقی ترقیاتی بجٹ بہت کم ہے، بجٹ پہلی70 ارب روپے ہوتا تھا، اب31 ارب روپے ملتا ہے، آیندہ مالی سال پانی کے منصوبوں کیلئے 150ارب روپے کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اتنا بجٹ تو وزارت کا نہیں ہے،جتنا آپ صرف پانی کے منصوبوں کیلئے مانگ رہے ہیں۔ کمیٹی کو آگاہ کیا گیا کہ مالی سال 2016-17کیلئے 173منصوبوں کیلئے 216ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی تھی لیکن صرف25سے 30فیصد فنڈ ہی جاری کئے گئے۔ رکن کمیٹی نواب یوسف تالپور نے کہا کہ ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز بروقت جاری کیے جائیں،فنڈزاجرا میں تاخیر سے منصوبوں کی لاگت بڑھ جاتی ہے، اس سے منصوبے بروقت مکمل بھی نہیں ہوپاتے۔

واپڈا حکام نے بتایا کہ کچھی کینال منصوبے کی لاگت57 سے بڑھاکر80ارب کرنے کی تجویزہے۔رکن کمیٹی جنید انوار چودھری نے کہا کہ اتنی لاگت بڑھنے پر کوئی احتساب بھی ہی ، اس طرح لاگت بڑھنے سے منصوبے بہت مہنگے پڑیں گے۔ وزیر مملکت پانی و بجلی عابد شیر علی نے کہا کہ دیامر بھاشا ڈیم کی زمین کا حصول اور آر ایل این جی منصوبوں کی کاسٹ پی ایس ڈی پی سے ادا کی گئی، آبپاشی صوبائی معاملہ ہے، اس کے باوجود اس شعبے کے مسائل کے حل کے لیے صوبوں سے تعاون کررہے ہیں، ہم اپنا زیادہ تر پانی ضائع کررہے ہیں، اس سلسلے میں ریڈ لائن کراس کررہے ہیں،دنیا کی طرح پانی کے انتظام کو بہتر بنانا ہو گا، نہری پانی چوری ہورہا ہے،صوبائی حکومتیں روک تھام کے لیے اقدامات کریں،ترقیاتی منصوبے بروقت مکمل ہونے چاہئیں،منصوبوں میں تاخیر سے ملک و قوم کا پیسہ ضائع ہوتا ہے، تاخیرکی تحقیقات کرکے قصور واروں کو سزائیں ملنی چاہئیں۔

قائمہ کمیٹی کو سیپکو حکام نے بتایا کہ آ ئندہ مالی سال کے لئے ہمیںسات ارب روپے کی ضرورت ہے۔گیپکو حکام کی طرف سے آ گاہ کیا گیا کہ گوادر میں ٹرانسمیشن لائن کے بڑے منصو بے سمیت تین جاری منصو بوں کے لئے فنڈز درکا ر ہیں۔آ ئیسکو حکام کی طرف سے بتا یا گیا کہ چو تھے مر حلے میں پچاس منصو بو ں کے لئے 17ارب کی رقم درکار ہے۔ یہ منصو بے اگلے سال مکمل ہو جائیں گے۔

ایڈوانس میٹرنگ انفرا سٹرکچر کے لئے 1800ملین کی ڈیمانڈ کی ہے۔یہ منصو بہ ابھی ابتدائی سٹیج پر ہے۔تین سے چار سال سے مکمل ہو گا۔ٹرائبل الیکٹر ک سپلائی کے حکا م کی طرف سے ایک ایجنسی میں جا ری بجلی کی ترسیل کے منصو بے لئے فنڈز مانگے گئے۔فیسکو حکام کی طرف سے آ ئندہ مالی سال دو منصو بو ں کے لئے فنڈز مانگے گئے۔سکھر الیکٹر ک سپلائی کمپنی کی طرف سے آ ئند ہ مالی سال کے لئے 3.5ارب کی ڈیمانڈ کی گئی۔

لیسکو حکام نے کہاکہ گزشتہ سال 1598ملین روپے ما نگے تھے۔آ ئندہ مالی سال کے لئے 1.4ارب کی ڈیمانڈ کی ہے۔ قائمہ کمیٹی برائے پانی و بجلی نے وزارت کیلئے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی منصوبوں کے حوالے سے تجاویز کی منظوری دے دی، وزارت کی طرف سے مالی سال 2017-18 کے 180منصوبوں کیلئے 231ارب روپے کی ڈیمانڈ کی گئی، کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ وزارت پانی و بجلی کیلئے تجویز کیے گئے فنڈ کو مختص کر انے کیلئے وزارت خزانہ اور وزارت منصوبہ بندی و ترقی سے رابطہ کیا جائے گا۔

واپڈا حکام نے بتایا کہ کچھی کینال کے منصوبے کی لاگت 57 ارب روپے سے بڑھا کر 80ارب روپے کرنے کی تجویز ہے جس پر ممبر کمیٹی جنید انوار چوہدری نے کہا کہ اتنی لاگت بڑھنے کا کوئی احتساب بھی ہے چیف انجنئیرسندھ اریگیشن نے بریفنگ دیتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ کینجر جھیل تک 1000 کیوسک لاسز ہیں اور ٹوکن کے طور پر 1000 ملین کی ڈیمانڈ کی ہے منچر جھیل کا لنک بھی دریا سے ختم ہو گیا ہے ہمارے 6 منصوبے رین واٹر ہارویسٹنگ کیلئے بھی ہی- اس کیلئے کچھ زمین بھی چاہئی- 91 بلین رف ڈیمانڈ ہے اور اس سال ہماری ڈیمانڈ 74 بلین کی ہے جس پر پنجاب سیکریٹری اریگیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ پنجاب میں اریگیشن کے سکیمز پر 56 فیصد کام ہو چکا ہے پنجاب کا تھرو فاروڈ 54 بلین روپے ہے 2017-2018 کیلئے ہم نے 7 منصوبوں لگانے ہیں جس پر 71 بلین کی ڈیمانڈ ہے نئے منصوبوں کیلئے ٹوٹل 91 بلین چاہئے ابھی 74 بلین کی ڈیمانڈ کی ہے سندھ اور پنجاب میں اریگیشن سسٹم پرانا ہی- 2004 میں سکھر بیراج تزین و آرائش کیلئے کہا تھا جس پر آج تک عمل در آمد نہیں ہو سکاسندھ میں ایواپوریشن لاسز زیادہ ہوتے ہیںسر نارا کنال کیلئے ہمیں مزید فنڈز چاہئے گزارش ہے کہ ریلیز کئے جائیں سکھر بیراج کی آرائش کیلئے ورلڈ بینک فنانس کرے گا نئے سال 2018 کیلئے 12 منصوبے پروپوز کئے ہی سکھر بیراج کی ریہیبیلیٹیشن نا ہوئی تو دس سال میں اس سے کوئی فائدہ نہیں ملے گاسکھر بیراج کا 16 بلین کا منصوبہ ہے فنڈز مل گئے تو مزید 30 سے 40 سال تک کار آمد بنا سکتے ہیں چولستان میں ہکڑہ دریا کا ہیڈ چوک ہو گیا تھا جس کی وجہ سے روٹ پانی کا تبدیل ہو گیا تھا پھر دوبارہ سروے کرنے کے بعد اب ہم اس کو گڈو بیراج سے کنیکٹ کر سکتے ہیںکے پی کے حکام نے بتایا کہ صوبے میں چار سکیم ہیں جس کی لاگت 46 بلین روپے ہے نئے سکیمز کے لئے کے پی 127 بلین کی ڈیمانڈ ہے 2017-2018 میں 2 بلین کی ڈیمانڈ کی گئی ہے بلوچستان کے 3 سکیمز کیلئے 19 بلین کی ڈیمانڈ کی گئی ہے اور 18 سکیم نئے پروپوز کئے گئے ہیں جس کیلئے ڈیمانڈ 8۔

91 بلین ہے کے پی کے چار اضلاع بہت زرخیز ہیں لیکن اریگیشن کا نظام انگریزوں کے زمانے کا ہے جو ناکارہ ہو رہا ہے ان کی تزین و آرائش لازمی ہے۔