1999ء کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہو چکی ہیں ،ْ 40،ْ45سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ،ْسلمان اکرم راجہ

نائن الیون کے بعد دنیا بدل چکی ،ْ کمپیوٹر کا دور آگیا ہے ،ْ مطمئن کریں حسین نواز لندن فلیٹس کے مالک کب بنے ،ْجسٹس آصف سعید کھوسہ

بدھ 15 فروری 2017 15:17

1999ء کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہو چکی ہیں ،ْ ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 فروری2017ء) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس معاملہ پر دائر درخواستوں کی سماعت کے دور ان وزیر اعظم کے صاحبزادوں کے وکیل ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے کہا ہے کہ 1999ء کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہو چکی ہیں ،ْ 40،ْ45سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں ،ْکیا عدالت انکوائری کے بغیر کسی نتیجے تک پہنچ سکتی ہی وزیر اعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں اس لئے ان کے بچوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ممکن نہیں ،ْ وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بارِ ثبوت میرے موکل کے سر نہیں آتا ،ْپاناما کیس کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، اس لیے اگر حسن اور حسین نواز ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ،ْ سپریم کورٹ یہ واضح کرچکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتا ،ْقانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے اور سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنانے کا حکم دے سکتی ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو سماعت کے دوبارہ آغاز پر ایڈووکیٹ سلمان اکرم راجا نے صحتیاب ہو کر آنے والے جسٹس شیخ عظمت سعید کو خوش آمدید کہا جس پر بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ اللہ کے شکر گزار ہیں جس نے جسٹس عظمت سعید کو صحت عطا کی اور جس شخص نے بھی فاضل جج کی صحت کیلئے دعا کی ، اس کے بھی شکر گزار ہیں ۔ وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجانے اپنے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ میرے سامنے کل آٹھ سوال رکھے گئے تھے۔

سلمان اکرم راجا نے کہاکہ نہ عدالت میں ٹرائل جاری ہے اور نہ ہی ان کے موکل گواہ ہیں لہذا جتنا ریکارڈ موجود ہے وہ اس کے مطابق جواب دیں گے۔سلمان اکرم راجا نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ 40-45 سال کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں اور 1999 کے مارشل لاء کی وجہ سے تمام خاندانی دستاویزات ضائع ہوچکی ہیں۔حسن اور حسین نواز کے وکیل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے خلاف کوئی چارج نہیں، اس لیے ان کے بچوں کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں، اور اگر وزیر اعظم کے بچوں کو نیب کے قانون کے تحت ملزم مانا جائے تو بارِ ثبوت میرے موکل کے سر نہیں آتا۔

سلمان اکرم راجا کے مطابق پاناما کیس کوئی فوجداری مقدمہ نہیں، اس لیے اگر حسن اور حسین نواز ملزم بھی ہیں تو ان کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں۔اپنے دلائل میں ان کا کہنا تھا کہ ارسلان افتخار کیس میں عدالت کہہ چکی ہے کہ ٹرائل صرف متعلقہ فورم پر ہو سکتا ہے اور معاملہ تحقیقات کیلئے اداروں کو بھجوایا جاسکتا ہے، کیونکہ عدالت نے کبھی فوجداری مقدمات کی تحقیقات نہیں کیں۔

سلمان اکرم راجا کے مطابق آرٹیکل 10 ہر شخص کو شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے۔لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس آصف کھوسہ نے سلمان اکرم راجا کو ہدایت دی کہ وہ پہلے اپنے دلائل مکمل کرلیں اس کے بعد سوالات کے جواب دیں۔سلمان اکرم راجا نے سوالات دہراتے ہوئے کہا کہ عدالت میں میاں شریف اور الثانی خاندان کے تعلق، نیلسن اور نیسکول کے شیئرز مالی فوائد اور ٹرسٹ ڈیڈ پر سوال اٹھائے گئے اور وہ ان سب کے جواب دیں گے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ سپریم کورٹ یہ واضح کرچکی ہے کہ عوامی مفاد کے مقدمے میں کسی کو ملزم قرار نہیں دیا جاسکتاان کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق بنائے گئے اداروں کو ان کا کام کرنے دیا جائے اور سپریم کورٹ خود انکوائری نہیں کر سکتی صرف کمیشن بنانے کا حکم دے سکتی ہے۔اس موقع پر انہوں نے یہ سوال اٹھایا کہ کیا عدالت کا قائم کردہ کمیشن فوجداری مقدمے کے طرح کیس کا ٹرائل کر سکتا ہی جس پر عدالت نے انہوں دوبارہ ٹوکتے ہوئے اپنے دلائل مکمل کرنے کی ہدایت دی اور کہا کہ وہ دلائل مکمل کرنے کے بعد ایسے قانونی سوالوں کے جواب دیں۔

جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا سے دریافت کیا کہ کیا وہ یہ واضح کرسکتے ہیں کہ لندن فلیٹس کیسے خریدے گئی سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ موقف اپنایا جاتا ہے کہ حسن نواز نے لندن فلیٹس دادا کے کاروبار کے ذریعے لیے جبکہ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ فلیٹس وزیر اعظم کی ملکیت ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ درخواست گزار فلیٹس کیلئے 1999 کے لندن کے عدالتی فیصلے کا سہارا لیتا ہے۔

ماضی میں ہونے والے مقدمات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوںنے کہاکہ دونوں طرف کے حقائق جاننے کے بعد عدالت معاملہ کسی مناسب فورم پر بھیج سکتی ہے، جیسے کہ این آئی سی ایل اور حج کرپشن کیس میں عدالت نے دوسرے فورم سے تحقیقات کرائیں۔سلمان اکرم راجا نے سوال کیا کہ کیا عدالت 184/3 کے تحت کسی دوسری عدالت کا اختیار حاصل کرسکتی ہی ۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ حسین نواز نے لندن فلیٹ کی ملکیت تسلیم کی ہے ۔

لندن فلیٹ کی ملکیت پر کوئی تنازع نہیں ہے مگر کیا یہ وضاحت مانگی جاسکتی ہے کہ یہ فلیٹ بچوں نے کیسے خریدی ۔سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ فلیٹس دراصل حسین نواز نے اپنے دادا کے کاروبار سے خریدے تھے تاہم درخواست گزار کا موقف ہے کہ یہ فلیٹس وزیراعظم نے غلط طریقے خریدے۔ان کا کہنا تھا کہ ریکارڈ پر ایسی کسی بھی بدعنوانی کا ریکارڈ موجود نہیں لہذا یہ نہیں کہا جاسکتا کہ عہدے کا استعمال کرتے ہوئے لندن فلیٹس خریدے گئے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ تیار نہیں کی تھی۔جس پر وکیل کا کہنا تھا رحمان ملک نے معطلی کے دوران لندن فلیٹس کے بارے میں رپورٹ تیار کی تھی تاہم رحمان ملک کو سرکاری سطح پر کوئی تحقیقات نہیں سونپی گئیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سلمان اکرم راجا سے سوال کیا کہ رحمان ملک نے اپنی رپورٹ میں جن اکاؤنٹس کا ذکر کیا تھا کیا اس سے انکار کر سکتے ہیں رحمٰن ملک کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے سلمان اکرم راجا کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ بھی اس رپورٹ کو مسترد کرکے ملزمان کو بری کر چکا ہے، اور قانون کی نظر میں رحمان ملک کی رپورٹ کی کوئی حیثیت نہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ شیزی نقوی کا لندن میں دیا گیا بیان حلفی رحمان ملک کی رپورٹ کی بنیاد پر تھا اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ 1999 میں لندن فلیٹس وزیر اعظم کے تو کیا شریف خاندان کے بھی نہیں تھے۔وکیل حسن نواز نے کہاکہ 1993 سے 1996 کے دوران الثانی خاندان نے یہ فلیٹس خریدے اور جنوری 2006 میں الثانی خاندان نے فلیٹ کے بیریئر سرٹیفیکیٹ حسین نواز کے حوالے کیے، جس کے بعد جولائی 2006 میں ان بیریئر سرٹیفکیٹ کے شیئرز منروا کمپنی کو ملے۔

جسٹس عظمت شیخ سعید نے سلمان اکرم راجا سے دریافت کیا کہ اس تمام کا ریکارڈ کہاں موجود ہے اور وہ یہ ریکارڈ کب پیش کریں گی آپ ادھر ادھر کی چھلانگیں لگا رہے ہیں، دستاویز ہیں تو عدالت کو دکھائیں۔جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ الزام یہ ہے کہ مریم نے منروا سے رابطہ کیا جس پر سلمان اکرم راجا نے انہیں بتایا کہ وہ صرف منروا کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔

سلمان اکرم راجا نے عدالت کو مزید بتایا کہ قطری خاندان سے سمجھوتے کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ شریف خاندان کو ملے۔جسٹس آصف کھوسہ نے وکیل سے استفسار کیا کہ یہ سمجھوتا حماد بن جاسم سے ہوا یا الثانی خاندان سی سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ یہ سمجھوتا محمد بن جاسم کے ساتھ طے پایا۔جسٹس آصف کھوسہ نے سوال کیا کہ دوسرے قطری خط میں لکھا تھا کہ یہ سرٹیفکیٹ بھیجے گئے تاہم یہ نہیں واضح کیا کہ سرٹیفکیٹ حسین نواز کو دیا گیا ہے۔

سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے نمائندے نے حسین نواز کے نمائندے کے حوالے کیے تھے۔جسٹس آصف کھوسہ کا اس موقع پر کہنا تھا کہ انہیں قطری خط زبانی یاد ہوچکے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا دبئی فیکٹری کے 12 ملین درہم الثانی خاندان کے پاس پڑے رہی اور 26 سال تک یہ پیسہ بڑھتا رہا کیا اس سرمایہ کاری کا دستاویزی ثبوت موجود ہی سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ اس سب کا ریکارڈ رکھا گیا ہوگا مگر اس وقت دستیاب نہیں ہے، کیونکہ 1999 میں شریف فیملی کا ریکارڈ قبضے میں لے لیا گیا تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ حسین نواز کی جانب سے کہا گیا کہ ان کے دادا نے یہ فلیٹس ان کی تعلیم کے لیے خریدے یعنی دو طالب علموں کے لیے لندن میں چار فلیٹس کا بندوبست کیا گیا۔جس پر سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ تیسرا طالب علم حمزہ شہباز بھی تھا۔جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ آج آپ ایک اور طالب علم سامنے لے آئے ہیں۔سلمان اکرم راجا کے مطابق وہ یقین سے تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کا خیال ہے کہ حمزہ شہباز بھی لندن میں طالبعلم تھے۔

سلمان اکرم راجا نے کہاکہ حقائق کے ساتھ جوا نہیں کھیلیں گے ،ْ قطری خاندان سے سیٹلمنٹس کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹ ملے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں معاملہ ایمانداری کا ہے۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے استفسار کیا کہ منروا کمپنی اور حسین نواز کے درمیان سروسز کا معاہدہ کہاں ہی پہلے دن سے یہ دستاویز غائب ہے۔الزام ہے کہ منروا کمپنی سے رابطہ مریم نواز نے کیا اور مریم نواز ہی آف شور کمپنیوں کی بینیفشل مالک ہیں۔

گھبراتے کیوں ہیں، دستاویز دکھا دیں۔ منروا کمپنی کو خدمات کی ادائیگی کس کے اکائونٹ سے ہوتی ہے۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جو ریکارڈ بھی دستیاب ہوا وہ عدالت میں پیش کریں گے ،ْاپنے موکل کو منروا سروسز سے متعلق ریکارڈ دینے کا بھی کہوں گا۔ سماعت کے دور ان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ 2006 میں سرٹیفکیٹس کے ٹرانسفر کا ریکارڈ تو ہونا چاہئے ،ْ یہ تو کوئی پچاس سال پرانی بات نہیں۔

یہ ریکارڈ تو کمپیوٹر کا ایک بٹن دبانے سے بھی مل سکتا ہے۔ نائن الیون کے بعد دنیا بدل چکی اور کمپیوٹر کا دور آگیا ہے ،ْ مطمئن کریں کہ حسین نواز لندن فلیٹس کے مالک کب بنے۔ فلیٹس کی ملکیت کا کوئی ایشو نہیں ۔ سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ نائن الیون کے بعد کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس کے بجائے رجسٹریشن کا دور شروع ہوا۔ حسین نواز جنوری 2006 سے ان فلیٹس کے مالک ہیں اگر کسی کے پاس اس سے پہلے کی ملکیت کا ثبوت ہے تو وہ لے آئے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ سامبا بینک کو مریم نواز کا نام سامنے لانے کی کیا ضرورت تھی۔ سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ حسین نواز نے مریم نواز کو کمپنیوں کا دستخطی نمائندہ مقرر کیا تھا۔ اسی لئے سامبا بینک نے منروا کمپنی کو مریم نواز کے بارے میں بتایا۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ موزیک فورنسیکا اور منروا کی خط و کتابت میں تو مریم نواز کو بینیفشل مالک بتایا گیا ہے۔ سلمان اکرم راجہ نے اس حوالے سے موجود تمام دستاویز کو جعلی قرار دیا ۔جسٹس عظمت سعید نے سوال کیاکہ ریکارڈ پر ایسی کون سی دستاویز ہے جس سے حسین نواز بینی فیشل مالک ثابت ہوتے ہیں۔ ایسی دستاویز ہے تو دکھا دیں بعد ازاں سماعت (آج)جمعرات تک ملتوی کر دی گئی ۔