بی این پی اور ایس یو پی کا 26مارچ کو کرپشن کے خلاف ’سندھ مارچ‘ کا اعلان

پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا فائدہ صرف ایک صوبے کو پہنچایا جارہا ہے،بلوچستان میں مردم شماری کا عمل روکا جائے ،سردار اختر مینگل دہشت گردی ،کرپشن، قدرتی وسائل پر صوبوں کی حکمرانی سمیت دیگر امور پر مشترکہ جدوجہد کی جائے گی ،جلال محمودشاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب

منگل 14 فروری 2017 21:09

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 فروری2017ء) بلوچستان نیشنل پارٹی اور سندھ یونائیٹڈ پارٹی نے 26مارچ کو کراچی میں نمائش چورنگی سے پریس کلب تک کرپشن کے خلاف ’’سندھ مارچ‘‘ کرنے کا اعلان کیا ہے ۔بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سردار اختر مینگل نے کہا ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا فائدہ صرف ایک صوبے کو پہنچایا جارہا ہے ۔

امن و امان کی مکمل بحالی تک بلوچستان میں مردم شماری کا عمل روکا جائے ۔ ہمیں تو پنجاب کب کا ماموں بنا رہا ہے اب خیبرپختونخوا کو بھی بنادیا ہے ۔صوبوں کو 21ویں تریم کے تحت اختیارات دیئے جائیں ۔احتجاج کرنے والے بلوچستان کے لوگوں کو سڑکوں سے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔بلوچستان حکومت نے تمام اقدامات پر شطر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

(جاری ہے)

جلال محمود شاہ نے کہا کہ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی میں دہشت گردی ،کرپشن، قدرتی وسائل پر صوبوں کی حکمرانی سمیت دیگر امور پر مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق طے پاگیا گیا ہے ۔دونوں جماعتیں مل کر ان اہم ایشوز پر مشترکہ جدوجہد کریں گی۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے منگل کو حیدر منزل میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

اس سے قبل دونوں رہنما ؤں کے درمیان اہم ملاقات ہوئی ،جس میں باہمی دلچسپی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا ۔ملاقات میں فیصلہ کیا گیا کہ دونوں جماعتیں 26مارچ کو کراچی میں نمائش چورنگی سے پریس کلب تک کرپشن کے خلاف ’’سندھ مارچ‘‘ کریں گی ۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ سندھ اور بلوچستان کی مشترکہ نکات پر سیاسی رفاقت ہونی چاہئے ۔ہمارا سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے ساتھ پرامن سیاسی جدوجہد کے ذریعہ حقیقی وفاقی نظام کے قیام ،قدرتی وسائل اور حق ملکیت پر صوبوں کے کے حق،غیر ملکی مہاجرین کی واپسی ،مقامی زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دلانے اور ماورائے آئین اقدامات کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے لیے اتحاد ہوا ہے ۔

انہوںنے کہا کہ انہوںنے کہا کہ سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے حالات بلوچستان سے الگ ہیں۔بلوچستان میں فوجی آپریشن کی وجہ سے آبادیاں اکثر جگہوں پر کم ہو گئی ہیں۔انہوںنے کہا کہ سمجھ میں نہیں آتا ہے کہ بلوچستان کی کہانی کہاں سے شروع کروں ۔ترقی کے نام پر ہمیں اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے ۔بلوچستان کی آبادی ساڑھے 4 سو فیصد بڑھا دی گئی ہے ،جس کی وجہ سے افغان مہاجرین کی صوبے میں آمد ہے ۔

گوادر میں مقامی ماہی گیروں کو انکے علاقوں سے منتقل کیا جارہا ہے ۔ہمیں خدشہ ہے کہ مقامی لوگوں کو اقلیت میں تبدیل کیا حائے گا۔ہماری حق ملکیت کو تسلیم کیا جائے۔حق ملکیت آئین پاکستان کے تحت مانگ رہے ہیں۔۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان سمیت دیگر چھوٹے صوبے محرومیوں کا شکار ہیں ۔ہم چاہتے ہیں کہ صحیح مردم شماری کرکے اس کے مطابق حق دیا جائے۔

موجودہ صورتحال میں لوگ نقل مکانی کرگئے ہیں ۔ گاؤں کے گاؤں خالی پڑے ہوئے ہیں ۔غیر ملکیوں کو شناختی کارڈ کا اجراء کیا جارہا ہے ۔ان افراد کو مردم شماری میں شامل نہ کیا جائے اور بلوچستان کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے مردم شماری کے عمل کو روکا جائے ۔انہوںنے کہا کہ انہوںنے کہا کہ سی پیک منصوبہ صرف ایک صوبے کے لیے ہے ۔بلوچستان میں صرف ایک فیصد کام ہوگا۔

بلوچستان کا چیف سیکریٹری خود کہ چکا ہے کہ سی پیک کے لئے ابھی تک ایک انچ بھی زمین مختص نہیں کی گئی ہے ۔بلوچستان کی ترقی کے لیے تین چیزیں اہم ہیں جن میں بجلی ،گیس اور پینے کا صاف پانی شامل ہے ۔ان سہولتوں کے ملنے تک صوبے میں ترقی ممکن نہیں ہے ۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں ترقی کے نام پر حکمران خفیہ معاہدوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے۔

صوبے میں ترقی کے جزوی عنصر مہیا ہی نہیں کئے گئے ہیں ۔اگر خفیہ معاہدہ ترقی کے لیے تو انہیں سامنے لایا جائے اور صوبے میں غیر ملکی مداخلت خواہ اس کا تعلق کسی سے بھی ہو اسے روکا جائے ۔انہوںنے کہا کہ ہمیں تو پنجاب کب کا ماموں بنا رہا ہے اب خیبرپختونخوا کو بھی بنادیا ہے ۔صوبوں کو 21ویں تریم کے تحت اختیارات دیئے جائیں ۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان کے تمام ادارے مفلوج ہیں اور ان میں کرپشن کا بازار گرم ہے ۔

دھماکوں میں سول اسپتال میں ابتدائی طبی امداد نہ ملنے سے 70 فیصد ہلاکتیں ہوتی ہیں ۔احتجاج کرنے والے بلوچستان کے لوگوں کو سڑکوں سے پہاڑوں کی طرف دھکیل دیا گیا ہے۔بلوچستان حکومت نے تمام اقدامات پر شطر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔انہوںنے کہا کہ بلوچستان میں بجلی اور پانی کا سنگین بحران ہے۔بلوچستان کی عوام کو ان کے حقوق دیئے جائیں۔

ہم دوسری پارٹیوں کو بھی جدوجہد کے لئے دعوت دیتے ہیں۔سندھ یونائیٹڈ پارٹی سے اتحاد صرف مردم شماری کے لیے نہیں ہے ہم اپنے حقوق کے لیے مشترکہ جدوجہد کریں گے ۔ اس موقع پر سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے سربراہ سید جلال محمود شاہ نے کہا کہسردار اختر مینگل اور انکی جماعت کا شکرگزار ہوں، وہ وقت بہ وقت بلوچستان اور سندھ کے مسئلوں پر بات کرتے رہے ہیں۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی میں دہشت گردی ،کرپشن، قدرتی وسائل پر صوبوں کی حکمرانی سمیت دیگر امور پر مشترکہ جدوجہد کرنے پر اتفاق طے پاگیا گیا ہے ۔دونوں جماعتیں مل کر ان اہم ایشوز پر مشترکہ جدوجہد کریں گی ۔