موبائل کمپنیاں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ،ْعوام کا کوئی پرسان حال نہیں ،ْ اراکین سینٹ

کمپنیوں کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، کہیں سگنل نہیں ہوتے ،ْ کہیں انٹرنیٹ نہیں چلتا ،ْ حکومت معاملہ میں عوام کے حقوق کا تحفظ کرے ،ْ سینیٹر طاہر حسین مشہدی ،ْ سینیٹر فرحت اللہ بابر ،ْ سینیٹر عتیق شیخ ،ْ سینیٹر رحمن ملک و دیگر کا اظہار خیال ،ْ چیئر مین سینٹ نے معاملہ نمٹا دیا

پیر 13 فروری 2017 22:17

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 13 فروری2017ء) اراکین سینٹ نے کہا ہے کہ موبائل کمپنیاں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں ،ْعوام کا کوئی پرسان حال نہیں، میڈیا ان کے خلاف خبریں نہیں چلاتا۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین سینیٹ نے پیر کو سینیٹر طاہر مشہدی کی تحریک کہ یہ ایوان حد سے زیادہ کالوں اور ایس ایم ایس پیکیجز کے حوالے سے ملک میں موبائل کمپنیوں کی کارکردگی کو زیر بحث لائے ،ْپر بحث میں حصہ لیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

تحریک کے محرک سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ موبائل کمپنیاں عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہی ہیں۔ دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں زائد چارجز لئے جا رہے ہیں، کئی کمپنیاں تو صرف میسجز کے مہینے کے 300 سے 400 روپے لے لیتی ہیں۔

(جاری ہے)

اس کے علاوہ ان کے کئی پیکیجز بڑے متنازعہ ہیں جن میں نائٹ پیکیجز بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کارپوریٹ ڈاکو ہیں جو دونوں ہاتھوں سے لوگوں کو لوٹ رہے ہیں۔

حکومت کو عوام کو تحفظ دینا ہوگا اور ان کمپنیوں پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے کے لئے قانون سازی کرنا ہوگی۔ سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ یہ اصل میں ریگولیٹری ادارے کا ایشو ہے، وہ اپنا کام درست طور پر نہیں کر رہا جس کے باعث موبائل کمپنیاں خود سر ہو چکی ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں وارد اور موبی لنک کا انضمام ہوا اور موبی لنک نے کنٹرول ہاتھ میں لیتے ہی وارد کے 300 سے 400 فرنچائزرز کو جنبش قلم ختم کر دیا، حتیٰ کہ میڈیا نے بھی اس معاملے کو نہ اٹھایا۔

ایم کیو ایم کے سینیٹر عتیق شیخ نے کہا کہ موبائل کمپنیوں کی نہ صرف سروس غیر معیاری ہے بلکہ انہوں نے کنکشن بھی اپنی گنجائش سے زائد دے رکھے ہیں جس کی وجہ سے سسٹم اوور لوڈ رہتا ہے جہاں 100 کنکشنوں کی کوئی رعایت تھی وہاں 130 سے 150 دے رکھے ہیں۔ میڈیا بھی ان کی بدعنوانیوں کو سامنے نہیں لاتا کیونکہ یہ میڈیا کو کروڑوں کے اشتہارات دیتے ہیں۔ انہوں نے تجویز کیا کہ ایوان کو اس حوالے سے باقاعدہ قانون سازی کرنی ہوگی اور عوام کو ان کی چیرہ دستیوں سے بچانا ہوگا۔

یہ لوگ عوام سے ٹیکسز کی رقم ایڈوانس کاٹ لیتے ہیں لیکن آگے جمع بھی نہیں کرواتے۔ سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ ہمارے قانون میں ایسی کوئی شق ہی موجود نہیں کہ انہیں کنٹرول کیا جا سکے۔ 100 روپے کے کارڈ لوڈ پر 70 روپے ملتے ہیں، کسی جگہ اس سے بھی کم ملتے ہیں۔ ان کے پیکیجز بھی غیر معیاری ہیں۔ مہینے کا چارج کرائیں تو 15 دنوں میں ختم کر دیا جاتا ہے اور کوئی فریاد رسی بھی نہیں ہوتی، از خود ریٹس بڑھا دیتے ہیں۔

وائی فائی بھی انتہائی مہنگا مہیاء کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان سے جواب طلبی کی جائے کہ یہ کس قانون کے تحت ریٹ بڑھا دیتے ہیں۔ یہ معاملہ کمیٹی کو بھیجا جائے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی سی ایل کی کارکردگی بھی روز بروز خراب ہو رہی ہے۔ بھارت آئی ٹی کی دنیا میں چھا گیا ہے لیکن ہم صلاحیتیں ہونے کے باوجود ناکام ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت اور عوام دونوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔

ان سروسز پروائیڈرز کو ریگولیٹ کرنا ہوگا۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ کم و بیش 13 کروڑ افراد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ گزشتہ سال موبائل کمپنیوں نے 185 ارب روپے عوام سے ٹیکس کی مد میں کاٹے جبکہ ایف بی آر کو ٹیکس کی مد میں صرف 43 ارب روپے فراہم کئے۔ ایف بی آر والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ان کمپنیوں کے معاملات چیک کرنے کا کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اتنے خود سر ہیں کہ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بھی نہیں آتے تاکہ ان سے جواب طلب کیا جا سکے۔ انہوں نے چیئرمین سے کہا کہ آپ اس حوالے سے ان پر دبائو بڑھائیں تاکہ وہ کمیٹی میں آئیں۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ یہ لوگ عوام کو بتائے بغیر پیکیجز تبدیل کر دیتے ہیں۔ حکومت اس معاملہ میں عوام کے حقوق کا تحفظ کرے۔ ان کی کارکردگی انتہائی ناقص ہے، کہیں سگنل نہیں ہوتے اور کہیں انٹرنیٹ نہیں چلتا تاہم چیئرمین نے معاملہ نمٹا دیا۔

متعلقہ عنوان :