ملک میں امن قائم ہو چکا، سرمایہ کاری آ رہی ہے، نیشنل ایکشن پلان سے بہتری آئی، دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے

ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان کا قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کے حوالے سے تحریک پر اظہار خیال

پیر 13 فروری 2017 20:36

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 13 فروری2017ء) ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان نے کہا ہے کہ ملک میں آج امن قائم ہو چکا ہے، سرمایہ کاری آ رہی ہے، نیشنل ایکشن پلان سے بہتری آئی ہے، دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل درآمد کیا جائے۔ پیر کو قومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کی موجودہ حیثیت کو زیر بحث لانے اور ملک میں اس پر یکساں عمل درآمد کے لئے طریقہ کار اور ذرائع تجویز کرنے کے حوالے سے اپنی تحریک پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے محرک سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ ملک کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ دہشت گردی سے ہے، اس میں بڑی تعداد میں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نیکٹا نے بھی اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی۔

(جاری ہے)

نیکٹا میں فنڈز اور افرادی قوت کی کمی ہے، تاحال مشترکہ انٹیلی جنس ونگ نہیں بن سکا۔ فوجی عدالتیں اس کا عارضی حل تھا، اس حوالے سے عدالتی اصلاحات بھی نہیں ہو سکیں، مدرسہ اصلاحات بھی سامنے نہیں آ سکیں، ہزاروں کیس عدالتوں میں زیر التواء ہیں۔ کریم احمد خواجہ نے کہا کہ پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔

سینیٹر فرحت الله بابر نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت انگیز تقریروں کو روکنا تھا لیکن اس حوالے سے مناسب اقدامات نہیں کئے گئے۔ سینیٹر کرنل (ر) سید طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ یہ بہت اہم مسئلہ ہے، نیپ پر عمل درآمد نہیں ہو رہا، کالعدم تنظیموں میں تفریق نہ کی جائے، سب کے خلاف کارروائی کی جائے۔ سینیٹر سسی پلیجو نے کہا کہ سندھ میں اس حوالے سے پولیٹیکل ول ہے، فوج نے اپنا کام کیا ہے، سویلین سائیڈ نے اپنا کام نہیں کیا۔

سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں مصلحتوں کا شکار ہیں، کراچی میں ابھی دہشت گرد موجود ہیں، اب گڈ اور بیڈ ایم کیو ایم بھی بن گئی ہے۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ دہشت گردی پوری طرح ختم نہیں ہوئی لیکن بہت کمی آئی ہے، اس کا اعتراف کرنا چاہئے، سندھ حکومت اپنی کارکردگی پر بھی ذرا غور کرے، صوبائی حکومت کو مجبور کر کے رینجرز کے ذریعے آپریش کیا، کراچی میں مکمل امن آئے گا۔

سینیٹر نہال ہاشمی نے کہا کہ نیپ کے 20 نکات میں سے جو صوبوں کے ذمے ہیں، ان پر کسی نے بات نہیں کی۔ بلاگرز کی بات اس ایوان میں اس طرح کی گئی کہ لگتا تھا کہ بی جے پی کا کوئی نمائندہ بات کر رہا ہے۔ حکومت کی کاوشوں اور دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کو سراہا جانا چاہئے۔ مدرسوں کے بچوں پر بلا وجہ ہر وقت تنقید کرنے سے احتراز کرنا چاہئے۔ سینیٹر حافظ حمد الله نے کہا کہ جن گھروں اور ٹھکانوں سے اسلحہ اور ٹارگٹ کلر نکلتے ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی موجود ہے، ملزموں کے اعترافات بھی موجود ہیں، ان کے سہولت کاروں کے خلاف پابندی لگائی گئی ہے یا نہیں ٹارگٹ کلرز فائیو سٹار ہوٹلوں اور یونیورسٹیوں سے نکلے کیا، ان کے خلاف کارروائی ہوئی، کسی مدرسے سے پاکستان مردہ باد کا نعرہ کبھی نہیں لگا پھر بھی ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں۔

سندھ حکومت نے مدارس کو مشکوک قرار دیا ہے۔ یہ بین الاقوامی ایجنڈا ہے کہ مدارس کو بدنام کیا جائے۔ مدارس میں 50 سے 60 لاکھ نوجوان پڑھتے ہیں، کبھی کسی مدرسے کے طالب علم نے ہڑتال کی، نہ خودکشی کی، نہ چوری کی، اس ملک کے دو مسئلے امن اور معیشت ہیں اور اس کے ذمہ دار 70 سال سے حکمرانی کرنے والے لوگ ہیں۔ سینیٹر چوہدری تنویر خان نے کہا کہ ملک میں آج امن قائم ہو چکا ہے، سرمایہ کاری آ رہی ہے، نیشنل ایکشن پلان سے بہتری آئی ہے۔ سینیٹر عثمان کاکڑ نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی رپورٹ پر من و عن عمل کیا جائے۔ سردار اعظم موسیٰ خیل نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد پسند و ناپسند کی بنیاد پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔

متعلقہ عنوان :