اورکزئی ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد داعش کو بنیاد فراہم کر رہے ہیں،امریکی جنرل جان نکولسن

پیر 13 فروری 2017 13:33

اورکزئی ایجنسی میں تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد داعش کو بنیاد فراہم ..
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 فروری2017ء) افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج کے کمانڈر جنرل جان نکولسن نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے اورکزئی ایجنسی میں ایک نئے مشترکہ دہشت گرد گروپ کی تشکیل اور لڑائی کے لیے تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد داعش کو بنیاد فراہم کر رہے ہیں،پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات امریکا کے لیے باعث تشویش ہیں۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق جنرل نکولسن اس وقت افغانستان میں 13 ہزار عالمی فوجی دستوں کے سربراہ ہیں، جن میں سے 8 ہزار 400 فوجی امریکی ہیں، وہ رواں ہفتے افغانستان کی حالیہ صورتحال پر بریفنگ دینے کے لیے امریکی سینیٹ کی آرمڈ فورسز کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے۔ جان نکولسن نے ایک امریکی قانون ساز کی اس بات سے بھی اتفاق کیا کہ پاکستان کے چین اور روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات امریکا کے لیے باعث تشویش ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ افغانستان میں موجود داعش، دراصل بنیادی طور پر افغانستان اور پاکستان میں موجود دہشت گردوں پر مشتمل ایک گروپ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان دہشت گردوں کی بنیادی رکنیت پاکستان حکومت کے خلاف بننے والے دہشت گرد گروپ ٹی ٹی پی کی ہے۔جنرل نکولسن نے بتایا کہ اورکزئی ایجنسی کے ٹی ٹی پی ارکان نے بعد ازاں داعش خراسان میں شمولیت اختیار کی، جس کے بعد ابتدائی جنگجو گروپ بنایا گیا، جو بعد ازاں افغانستان کے صوبے ننگرہار منتقل ہونے کے بعد وہاں کے 11 اضلاع تک پھیل گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ داعش میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی اکثریت پاکستانی طالبان ٹی ٹی پی کے ارکان کی ہے۔جنرل نکولسن نے کمیٹی کے رکن ڈیموکریٹک سینیٹر آنگس کنگ کی اس بات سے اتفاق کیا کہ پاک-افغان خطہ دہشت گردی کے لیے زرخیز خطے کی اہمیت رکھتا ہے۔انہوں نے کہا کہ خطے کے حالات بھی ان تنظیموں کی مدد کرنے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، یہ 20 دہشت گرد گروپ پاکستان اور افغانستان کے 20 کروڑ سے زائد افراد کے سروں پر بیٹھے ہوئے ہیں، اس علاقے کی 70 فیصد سے زائد آبادی 30 سال سے کم عمر افراد پر مشتمل ہے، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ علاقے میںروزگار کی شرح انتہائی کم ہے جو بنیادی اسلامی رجعت پسندی کو تشکیل دینے کے لیے کافی ہے۔

ان کے مطابق ان 20 گروپوں کے مجموعے کا ڈین این اے ٹیسٹ کیا جائے تو یہ ایک پیٹری ڈش کی طرح ہوگا اور پھر ہمیں یہ بھی پتہ چلے گا کہ کس طرح ان گرپوں نے ایک دوسرے کے ملاپ سے ترقی کی اور وہ آگے بڑھے۔جنرل نکولسن نے کہا کہ امریکا کی جانب سے نامزد کیے گئے دنیا کے 98 دہشت گرد گروپوں میں سے 20 دہشت گرد گروپ 3 متشدد انتہاپسند تنظیموں ساتھ پاک-افغان خطے میں کام کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے اور انسداد دہشت گردی کے پلیٹ فارمز کی اہمیت کی وجہ سے ہم اپنے ملک کی حفاظت کے لیے وسطی اور جنوبی ایشیا کے ان گروپوں پر زیادہ توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔جنرل نکولسن نے کمیٹی کو بتایا کہ افغان جنگ میں کسی حد تک تعطل تو آیا تھا، مگرافغان فوجیوں کی بہتر تربیت اور انہیں آلات فراہم کرنے سے اس میں کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے۔

انہوں نے کہا اسی لیے انہوں نے مزید چند ہزار فوجیوں اور افغان ایئرفورس کے لیے یو ایچ 60 بلیک ہاکس ہیلی کاپٹرز کے لیے کہا تھا، انہوں نے ان اقدامات کو طالبان کے خلاف افغان فوج کے لیے اہم جزو قرار دیا۔خیال رہے کہ امریکی حکومت پہلے ہی خطرناک پہاڑی سلسلوں کے حامل اس علاقے کے لیے وہاں کی فورسز کو اس وقت میسر روسی ساختہ ایم آئی 17 کی جگہ امریکی یو ایچ 60 بلیک ہاکس ہیلی کاپٹر دینے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔

کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والے اجلاس میں جنرل نکولسن اور کئی سینیٹرز نے اس بات پر اصرار کیا کہ افغان جنگ کو پاکستانی مدد کے بغیر نہیں جیتا جاسکتا۔جنرل نکولسن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان کی معاشی و فوج امداد میں کٹوتی کے بجائے اس کے ساتھ مل کر کام کیا جائے اور اس پر قبائلی علاقوں میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کو ختم کرنے پر زور دیا جائے۔

سینیٹ کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر جان مکین نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہافغانستان میں کامیابی کے لیے امریکا کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کا شفاف جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔جنرل نکولسن نے اجلاس کے دوران افغانستان میں بیرونی مداخلت پر بھی تحفظات کا اظہار کیا، خاص طور پاکستان، ایران اور روس کی مداخلت پر انہوں نے تشویش ظاہر کی جنہوں نے طالبان کی قانونی مدد جاری رکھی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ان بیرونی ممالک کی مداخلت کی وجہ سے افغان حکومت کی ایک مستحکم افغانستان کے قیام کی کوششیں ناکام ہو رہی ہیں۔انہوں نے کمیٹی کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بغیر سوچے سمجھے اچانک اقدامات نہ اٹھائے جائیں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے۔انہوں نے تجویز پیش کی کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا جامع جائزہ لیا جائے۔

جنرل نکولسن نے بتایا کہ پاکستانی قیادت نے ایک مستحکم اور پر امن افغانستان کے لیے امریکی مقصد کی حمایت کی ہے، مگر ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم نے اس حوالے سے پاکستانی رویئے میں تبدیلی نہیں دیکھی۔انہوں نے مزید کہا کہ تعاون کی کمی کی وجہ سے ہی طالبان یا حقانی نیٹ ورک گروپ کے ٹھکانوں کے خلاف کارروائی میں کمی دیکھی گئی ہے۔