کوئی بھی ہمیں اختیارات دینے کا درس نہ دے ،ہم اختیارات دینے کے چمپئن ہیں،وزیراعلیٰ سندھ

ہم بحیثیت قوم بہت سے مسائل کا شکار ہیں،ملک کا آئین صوبائی خود مختاری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ،سید مراد علی شاہ کراچی کا امن بڑی قربانیوں کے بعد بحال ہوا ہے،شہر کی ترقی کیلئے 10ارب روپے مختص کیے ہیں،ضرورت ہوئی مزید 10ارب دیں گے سی پیک ہمارا مستقبل ہے ،کسی کو اجازت نہیں دیں گے وہ ہمارے مستقبل سے کھیلے،بھٹکے لوگ واپس آجائیںخوش آمدید کہیں گے،سرفراز بگٹی اگر پاکستان کو بچانا ہے ،ترقی دینی ہے تو نوجوانوں کو آگے لانا ہوگا ،ڈاکٹر فاروق ستار ،پاکستان پرچم کو بلند رکھنے والی پارٹی کوئی بھی ہو سب بھائی بھائی ہیں،مصطفی کمال سی پیک پر سوالات ضرور اٹھائے جائیں ،راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں،راحیلہ درانی ،ملک سے محبت ہمارے عمل سے ظاہر ہونی چاہئے،شازیہ و دیگر کا جامعہ کراچی میں سیمینار سے خطاب

ہفتہ 11 فروری 2017 17:18

کوئی بھی ہمیں اختیارات دینے کا درس نہ دے ،ہم اختیارات دینے کے چمپئن ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 فروری2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بہت سے مسائل کا شکار ہیں۔ملک کا آئین صوبائی خود مختاری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔کوئی بھی ہمیں اختیارات دینے کا درس نہ دے ،ہم اختیارات دینے کے چمپیئن ہیں ۔کراچی کا امن بڑی قربانیوں کے بعد بحال ہوا ہے ۔اب میں بھی اس شہر میں بغیر پروٹوکول کے گھومتا ہوں ۔

کراچی کی ترقی کے لیے 10ارب روپے مختص کیے ہیں ۔اگر ضرورت ہوئی مزید 10ارب روپے دیں گے ۔نوجوان ملک کا سرمایہ ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی نوجوان قیادت ملکی ترقی میں نوجوانوں کو مواقع فراہم کررہی ہے ۔تعلیم کی بہتری حکومت سندھ کہ پہلی ترجیح ہے ۔تعلیم کے فروغ اور بہتری کے لیے جو بھی کرنا پڑا دریغ نہیں کریں گے ۔

(جاری ہے)

فاروق ستار کہتے ہیں کہ کراچی کو بجٹ نہیں ملتا ۔

وہ بتائیں کراچی کے اداروں میں حد سے زیادہ بھرتیاں کس نے کی ہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوںنے ہفتہ کو جامعہ کراچی میں ’’ قومی یکجہتی اور علاقائی روابط میں نوجوانوں کے کردار ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ ایک روزہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔سیمینار سے وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی ،اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی ،ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار ،پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال ،پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شازیہ مری اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ چاروں صوبوں سے آنے والے طلبہ و طالبات کو کراچی میں خوش آمدید کہتا ہوں ۔وہ بلا خوف و خطر کراچی گھوم سکتے ہیں۔میں خود بغیر پروٹوکول شہر میں گھومتا ہوں۔کراچی کا امن بڑی قربانیوں کے بعد بحال ہوا ہے۔انہوںنے کہا کہ ڈیوولیشن پلان کے تحت تعلیم کو نقصان سے دوچار کیا گیا۔ تعلیم کی بہتری حکومت سندھ کی ترجیحات میں شامل ہے۔

تعلیم کے فروغ اور بہتری کے لیے جو بھی کرنا پڑا دریغ نہیں کریں گے ۔ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں سیاست کو بدنام ترین شعبہ بنا دیا گیا ہے۔بیرون ملک اسکول کی سطح پر سیاست پڑھائی جاتی ہے۔سیاست کو نوجوانوں کی ضرورت ہے۔سیاست کے پلیٹ فارم سے نوجوان ملک و قوم کی خدمت کرسکتے ہیں۔گریجویشن کی شرط نے اسمبلیوں کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔

پڑھ لکھ کر آدمی تعلیم یافتہ تو ہو سکتا ہے، قابل نہیں۔انہوںنے کہا کہ حکومت سندھ کراچی کے ترقیاتی منصوبوں کو تیزی سے مکمل کررہی ہے۔40 سال بعد طارق روڈ کی بحالی کا کام شروع ہوا۔کراچی کی ترقی کے لیے دس ارب مختص کیے۔کراچی کے لیے مزید دس ارب کہ ضرورت ہوئی تو وہ بھی دیں گے ۔ہم پچاس کروڑ مہینہ کراچی کو دیتے ہیں۔جس کا زیادہ بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے۔

انہوںنے ڈاکٹرفاروق ستار کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاروق بھائی آپ نے واٹر بورڈ کاذکر کیا ہے ۔ واٹر بورڈ میں دس ہزار افراد بھی تو آپ نے بھرتی کر دئیے تھے ۔آپ کہہ رہے ہیں کہ کراچی کو بجٹ نہیں ملتا ،آپ یہ بھی تو بتائیں کراچی کے اداروں میں حد سے زیادہ بھرتیاں کس نے کی ہیں ۔ہم لوگوں کو نوکریوں سے نکلنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔انہوںنے کہا کہ نوجوان ملک کا سرمایہ ہیں ۔

پیپلزپارٹی کی نوجوان قیادت ملکی ترقی میں نوجوانوں کو مواقع فراہم کررہی ہے ۔نوجوان ہمارا مستقبل ہیں ۔نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ ملک کی ترقی کے لئے اپنی تعلیم پر توجہ دیں۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہاں بیٹھ کر ابھی چین کی مثال دی گئی ہے ۔چین سے زیادہ مرکزی سسٹم کسی ملک میں نہیں ہے ۔بحیثیت قوم ہمیں بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔مسائل کے حل کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت نے 18ویں ترمیم کرکے پہلا قدم اٹھایا تھا ۔

پہلے سب کچھ اسلام آباد سے کیا جاتا تھالیکن 18ویں ترمیم کے بعد اختیارات صوبوں کو منتقل کیے گئے ۔اب کوئی ہمیں اختیارات دینے کا درس نہ دے ۔ہم ختیارات دینے کے چمپئین ہیں اور ہماری توجہ ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے پر مبذول ہے ۔ آئین صوبائی خودمختاری کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے ۔تمام صوبے مل کر ہی ملک کو مضبوط بناسکتے ہیں ۔مراد علی شاہ نے کہا کہ انفرااسٹرکچر کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے ۔

صوبائی مالیاتی کمیشن قائم ہوچکا ہے۔صوبائی مالیاتی کمیشن کے تحت وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوگی ۔بلدیاتی اداروں کو اختیارات اسمبلی میں قانون سازی کرکے دیئے ہیں ۔کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ اختیارات قانون کے منافی ہیں۔سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے کہا کہ ہمارے لئے سی پیک اور صوبے میں امان و امان بہت بڑا چیلنج تھا۔

سیکورٹی فورسز کی مدد سے اب صوبے میں امن ہے۔شرپسند عناصر اب ختم ہو رہے ہیں۔ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔انہوںنے کہا کہ سی پیک ہمارا مستقبل ہے اور ہم کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ ہمارے مستقبل سے کھیلے ۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو واپسی کی دعوت دی ہے ۔وہ اگر واپس آئیں گے تو ہم انہیں خوش آمدید کہیں گے ۔ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار نے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر پاکستان کو بچانا ہے اور ترقی دینا ہے تو نوجوانوں کو آگے لانا ہو ۔

سپریم کورٹ ملک میں مردم شماری کرنے پر زور دے رہی ہے تو اس کے لیے ہم سب اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔آئندہ انتخابات میں سیاسی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو ٹکٹ دیں ۔انہوںنے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری ذمہ داری اور شفافیت سے عمل درآمد کرنا ہوگا ۔بلدیاتی اداروں کو اختیارات دیئے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کرسکتا ہے ۔

میری خواہن ہے کہ بلوچستان کے ہرڈویژن میں یونیورسٹی کا قیام عمل میں لایا جائے ۔انہوںنے کہا کہ کراچی میں بین الاقوامی امن مشقوں کا ہونا کراچی کے شہری کی حیثیت سے میرے لیے فخر کا باعث ہے ۔پاکستان سپر لیگ اور کراچی فیسٹول کے انعقاد سے امن کا پیغام پوری دنیا میں پہنچا ہے ۔فاروق ستار نے کہا کہ’’ کسی کے حکم پر نہ ہرگز نہ ناچی ہے نہ ناچے گی۔

کراچی صرف کراچی ہے کراچی صرف کراچی ہے‘‘۔پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال نے کہا کہ ہم لوگوں کو یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ پاکستان کے جھنڈے کو تھامنے والے آپس میں دشمن نہیں ہیں۔پاکستان پرچم کو بلند رکھنے والی کی پارٹی کوئی بھی ہو سب بھائی بھائی ہیں۔ ہم نے لوگوں سے ووٹ مانگنے کے لیے پارٹی نہیں بنائی ہے ۔پاک سرزمین پارٹی کردار سازی کے لیے کام کررہی ہے۔

سیاسی ، مذہبی اور نظریاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے لوگوں کو یکجا ہونے کی دعوت دے رہے ہیں۔اختلافات اور سیاسی دھڑے بندی کا کبھی خاتمہ ممکن نہیں ہے ۔اختلافات میں جکڑے رہے تو ترقی ناممکن ہے۔انہو ں نے کہا کہ پاکستان کے لوگ مختلف فرقوں، قوموں اور سیاسی طور پر الگ الگ ہیں۔ہر پارٹی یہی کہتی ہے کہ ان کے لوگ اور پارٹی ورکر سب سے اچھے ہیں دوسرا کوئی اچھا نہیں ہے ۔

ہمیں اس ماحول سے باہر نکلنا ہو گا۔انہوںنے کہا کہ ہم کوئی پوسٹ اور عہدہ لینے کے لیے نہیں آئے ہیں ۔ہم لوگوں سے ووٹ مانگیں گے جو دے ٹھیک جو نہ دے تو بھی ٹھیک ہے ۔سیاسی اختلاف کو دشمنی میں تبدیل نہیں کرنا چاہتے۔کسی جماعت میں شمولیت اختیار کرنا ثانوی بات ہے ۔ہم سب سے پہلے پاکستانی بننا ہوگا ۔انہوںنے کہا کہ غذائی اجناس میں خودکفیل ہونے کے باوجود اس ملک میں غذائی قلت کی وجہ سے 3.5 لاکھ بچے سالانہ مر رہے ہیں۔

کروڑ بچے معیاری پانی اور صحت کی سہولیات نہ ملنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں۔سی پیک ملک کی معیشت میں اہم کردار ادا کرے گا لیکن یہ بچے اس معیشت پر بڑا بوجھ ڈالیں گے۔ہمیں ان بچوں اور ان کی ماں کی بہتر صحت کیلئے پہلے سے کام کرنا ہے تاکہ اس اہم مسئلہ کو حل کر سکیں۔عہدے کے ساتھ عمر بڑھتی ہے نہ قبر میں کچھ کام آنے والا ہے، اچھے کام ہمارے ساتھ جائیں گے۔

پاکستان کو کوئی بھی اون کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔اختیارات کو آج تک نچلی سطح پر منتقل ہی نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں مسائل کا انبار ہے۔انہوںنے کہا کہ مستقل کامیابی کیلئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرکے یونین کونسل کو با اختیار بنانا ہے۔عوام کو خوشحال کرکے تمام وسائل سے مکمل استفادہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔اسپیکر بلوچستان اسمبلی راحیلہ درانی نے کہا کہ ہیومن ریسورس کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کا اہم جزو ہے ۔

پاکستان بننے میں نوجوانوں کا کلیدی کردار ادا کیاہے ۔ سی پیک پورے ملک کے لیے نہایت اہم ہے ۔سی پیک پر سوالات ضرور اٹھائے جائیں لیکن اس کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی جائیں ۔پاکستان پیپلزپارٹی کی رکن قومی اسمبلی شایہ مری نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں اس دنیا میں پاکستان جیسا ملک ملا۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں نوجوانوں کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے جس کی مثال بھگت سنگھ کی صورت میں موجود ہے ۔

ملک کی ترقی کے منصوبوں اور پالیسیوں میں نوجوانوں کو شامل کرنے کی ضروریات ہے۔ ملک سے محبت ہمارے عمل سے ظاہر ہونی چاہئے۔انہوںنے کہا کہ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات بڑھ رہے ہیں جن کو روکنے میں یا تو قوانین میں کمزوری ہے یا ہم اس کے اطلاق میں ناکام ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات کو روکنے میں نوجوان اپنا کردار ادا کریں گی, ۔