سینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس

ْ2013 ء میں ادا کیے گئے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ذیلی کمیٹی نے وزارت خزانہ ایف بی آر، وزارت پانی و بجلی، اسٹیٹ بینک اور متعلقہ اداروں میں اس حوالے سے کی گئی خط و کتابت طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں سپیشل آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے ایڈیٹر جنرل کو بھی طلب کرلیا

بدھ 8 فروری 2017 23:19

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 08 فروری2017ء) ایوان بالا کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کا اجلاس کنونیئر کمیٹیسینیٹر محسن عزیز کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں 2013 ء میں ادا کیے گئے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ 480 ارب روپے کی ادائیگی کے معاملات کا قائمہ کمیٹی کے کئی اجلاسوں میں تفصیل سے جائزہ لیاہے اور یہ ذیلی کمیٹی اس لیے تشکیل دی گئی تاکہ ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کی اڈٹ رپورٹ کے مطابق جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کا جائزہ لینے کے علاوہ وہ وجوہات بھی سامنے لائی جاسکے جن کی بدولت اتنی جلد بازی میں ایک دن کے اندر 480 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔

(جاری ہے)

ذیلی کمیٹی نے وزارت خزانہ ایف بی آر، وزارت پانی و بجلی، اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں میں اس حوالے سے کی گئی خط و کتابت طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں سپیشل آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے ایڈیٹر جنرل کو بھی طلب کرلیا تاکہ ان کی موجودگی میں اداروں سے سوالات اور ان کے جوابات حاصل کیے جاسکیں۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 29 آئی پی پیز کمپنیوں نے پانچ سالوں میں 2800 ارب کی بجلی دی جن کا سیل ٹیکس 466 ارب روپے بنتا تھا مگر 16 ارب روپے ادا کیے گئے اور اگر واپڈا 480 ارب روپے کا بریک اپ دے تو جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

رکن کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ اگر عام آدمی ٹیکس ادا نہ کرے تو ایف بی آر اس کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ مگر یہاں 480 ارب روپے کی ایک دن میں ادائیگی کی گئی اور ایف بی آر نے ابی تک ٹیکس وصولی چیک نہیں کی۔ جوائنٹ سیکرٹری واپڈا نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ کل ادائیگی 503 ارب روپے کی بنتی تھی مگر 480 ارب روپے ادا کیے گئے 22.9 ارب روپے کی ایل ڈیز کی ادائیگی ابھی تک نہیں کی گئی۔

کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے پری آڈٹ نہ کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پری اڈٹ کروانے سے بہت سی غیر ضروری ادائیگیاں بچ سکتی تھی۔ فوری ادائیگی کی وجوہات کے حوالے سے وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری ادائیگی کی گئی اور ادائیگی پری اڈٹ کے بغیر بھی ایمرجنسی میں کی جاسکتی ہے جس پر کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز اور رکن کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔

AGPR حکام نیکمیٹی کو بتایا کے پری آڈٹ ایک دن یا زیادہ سے زیادہ تین دن میں ہو سکتا تھا ۔ ذیلی کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ تمام متعلقہ اداروں سے دستاویزات حاصل کرکے ایڈیٹر جنرل کی موجودگی میں باقی اعتراضات کا آئندہ اجلاس میں جائزہ لیا جائے گا۔ ذیلی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر کامل علی آغا کے علاوہ وزارت خزانہ ، اسٹیٹ بینک، وزارت پانی و بجلی، اے جی پی آر کے حکام نے شرکت کی۔

متعلقہ عنوان :