ذیلی کمیٹی نے وزارت خزانہ، ایف بی آر، وزارت پانی و بجلی، سٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں مابین گردشی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے کی گئی خط و کتابت تفصیلات طلب

آڈیٹر جنرل کو گردشی قرضوں کے حوالے سے اعتراضات کا جائزہ لینے کیلئے آ ئندہ اجلاس میں بلالیاگیا

بدھ 8 فروری 2017 23:16

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 08 فروری2017ء) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی نے وزارت خزانہ ایف بی آر، وزارت پانی و بجلی، اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروںکے درمیان گردشی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے کی گئی خط و کتابت تفصیلات طلب کرلیں جبکہ آڈیٹر جنرل کو بھی گردشی قرضوں کے حوالے سے اعتراضات کا جائزہ لینے کے لئے آ ئندہ اجلاس میں طلب کرلیا۔

کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے پری آڈٹ نہ کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پری اڈٹ کروانے سے بہت سی غیر ضروری ادائیگیاں بچ سکتی تھی جبکہ وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری ادائیگی کی گئی اور ادائیگی پری اڈٹ کے بغیر بھی ایمرجنسی میں کی جاسکتی ہے۔

(جاری ہے)

ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں 2013 ء میں ادا کیے گئے 480 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔

کنونیئر کمیٹی نے کہا کہ 480 ارب روپے کی ادائیگی کے معاملات کا قائمہ کمیٹی کے کئی اجلاسوں میں تفصیل سے جائزہ لیاہے اور یہ ذیلی کمیٹی اس لیے تشکیل دی گئی تاکہ ایڈیٹر جنرل آف پاکستان کی آڈٹ رپورٹ کے مطابق جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں ان کا جائزہ لینے کے علاوہ وہ وجوہات بھی سامنے لائی جاسکے جن کی بدولت اتنی جلد بازی میں ایک دن کے اندر 480 ارب روپے کی ادائیگی کی گئی۔

ذیلی کمیٹی نے وزارت خزانہ ایف بی آر، وزارت پانی و بجلی، اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں میں اس حوالے سے کی گئی خط و کتابت طلب کرتے ہوئے آئندہ اجلاس میں سپیشل آڈٹ رپورٹ کے حوالے سے ایڈیٹر جنرل کو بھی طلب کرلیا تاکہ ان کی موجودگی میں اداروں سے سوالات اور ان کے جوابات حاصل کیے جاسکیں۔ ایف بی آر حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ 29 آئی پی پیز کمپنیوں نے پانچ سالوں میں 2800 ارب کی بجلی دی جن کا سیل ٹیکس 466 ارب روپے بنتا تھا مگر 16 ارب روپے ادا کیے گئے اور اگر واپڈا 480 ارب روپے کا بریک اپ دے تو جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

رکن کمیٹی کامل علی آغا نے کہا کہ اگر عام آدمی ٹیکس ادا نہ کرے تو ایف بی آر اس کا رویہ ٹھیک نہیں ہوتا۔ مگر یہاں 480 ارب روپے کی ایک دن میں ادائیگی کی گئی اور ایف بی آر نے ابی تک ٹیکس وصولی چیک نہیں کی۔ جوائنٹ سیکرٹری واپڈا نے ذیلی کمیٹی کو بتایا کہ کل ادائیگی 503 ارب روپے کی بنتی تھی مگر 480 ارب روپے ادا کیے گئے 22.9 ارب روپے کی ایل ڈیز کی ادائیگی ابھی تک نہیں کی گئی۔

کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے پری آڈٹ نہ کروانے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پری اڈٹ کروانے سے بہت سی غیر ضروری ادائیگیاں بچ سکتی تھی۔ فوری ادائیگی کی وجوہات کے حوالے سے وزارت خزانہ کے حکام نے کہا کہ بجلی کی کمی اور لوڈشیڈنگ کو کنٹرول کرنے کیلئے فوری ادائیگی کی گئی اور ادائیگی پری اڈٹ کے بغیر بھی ایمرجنسی میں کی جاسکتی ہے جس پر کنونیئر کمیٹی سینیٹر محسن عزیز اور رکن کمیٹی سینیٹر کامل علی آغا نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ًً کہ وزارت خزانہ کے حکام نے کمیٹی کو آ گا ہ کیا کہ ہنگامی صورتحال میں پری آڈٹ کے بغیر ادائیگی کر سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ میں کیس زیر سماعت تھا اور خطرہ تھا کہ گورنمٹ گارنٹی کال ہوجائے گی۔بجلی کی کمی کے باعث پری آڈٹ کے بغیر آئی پی پیز کو ادائیگی کی گئی۔ وزات خزانہ کے حکام نے کہاکہ آئی پی پیز کو 22.9 ارب روپے کی ادائیگی ابھی تک روک رکھی ہے۔ معاہدے کی خلاف ورزی کرنے پر یہ ادائیگی روکی گئی۔2013 میں 503 ارب روپے کے گردشی قرضے میں سے 480 ارب ادا کیئے گئے۔آئی پی پیز نے عالمی عدالتوں میں حکومت کے خلاف 13 کیسز دائر رکھے ہیں۔ ذیلی کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹر کامل علی آغا کے علاوہ وزارت خزانہ ، اسٹیٹ بینک، وزارت پانی و بجلی، اے جی پی آر کے حکام نے شرکت کی۔( و خ )

متعلقہ عنوان :