لاہور، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی انتظامیہ کی ملی بھگت خریدے گئے غیر رجسٹرڈ سٹنٹ میں کروڑوں کے فراڈ کا انکشاف

بدھ 8 فروری 2017 00:34

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 08 فروری2017ء) صوبائی دارالحکومت میں دل کے سب سے بڑے ہسپتال پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی انتظامیہ کی ملی بھگت خریدے گئے غیر رجسٹرڈ سٹنٹ میں کروڑوں روپے کے فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔ پی آئی سی نے سٹنٹ بنانے والی جس کمپنی سے سٹنٹ خریدے امریکہ کی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی میں اُن سٹنٹس کو تاحال رجسٹر نہیں کیا ہے۔

ذرائع کے مطابق غیر رجسٹرڈ سٹنٹس کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب کی خصوصی ٹیم نے 42 صفحات پر مشتمل تحقیقاتی رپورٹ پیش کردی ہے تاہم متعلقہ حکام پر اس حوالے سے پراسرار خاموشی طاری ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان سٹنٹس کو ایف ڈی اے کا منظور شدہ قرار دے کر خریدا گیا ہے اور ان سٹنٹس کا استعمال صاحب حیثیت مریضوں پر کیا گیا ہے۔

(جاری ہے)

کمپنی کے مطابق اس کی قیمت ایک لاکھ 34ہزار طے کی گئی ہے۔

یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ محکمہ سپیشلائز ہیلتھ کیئر کی جانب سے کیا گیا تھا کہ 50 سے 55 قسم کے ایسے سٹٹنٹ ہیں جو رجسٹرڈ ہیں۔ ریزولیوٹ اونکس سٹنٹ تیار کرنے والی میڈترونکس کی ویب سائٹ نے حقیقت واضح کردی۔ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر بھی اونکس سٹنٹ غیر رجسٹرڈ ہونے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ غیر رجسٹرڈ ریزرولیوٹ سٹنٹ امریکہ میں انڈرٹائل ہیں اور پی آئی سی میں اس کا بے دریغ استعمال کیا گیا ہے۔

پی آئی سی انتظامیہ نے ایک سال میں 800 سے زائد غیر رجسٹرڈ ریزولیوٹ اونکس سٹنٹ استعمال کیے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ انسپکٹر جنرل آف پولیس پنجاب محمد مشتاق سکھیرا کو جو دو روز قبل سٹنٹ ڈالا گیا وہ بوسٹن سائنٹفک کمپنی کے رجسٹرڈ ہیں اور وہ سٹنٹس کی بڑی کھیپ سپلائی کرتی ہے۔ اُس کا پرومس پرٹمپرپس سٹنٹ ڈالا گیا ہے۔ پی آئی سی میں ہونے والے اس گھنائونے دھندہ میں انتظامیہ نے پی آئی سی میں قائم فارمیسی کی آڑ میں کیا اور اس کا اصل مقصد اُن مریضوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا تھا جو اپنے علاج معالجہ کے لئے رقم خرچ کرنے کے قابل ہے جبکہ اس کی نسبت غریبوں کو ڈالے جانے والے سٹنٹس ان کی نسبت بہتر کوالٹی کے تھے اور وہی سٹنٹ آئی جی پنجاب کو ڈالا گیا ہے۔

چند روز قبل میو ہسپتال سے شروع ہونے والی کہانی کے ابھی کئی پردے اٹھنے باقی ہیں بڑے پیمانے پر تحقیقات کی جارہی ہے۔ (سعید)

متعلقہ عنوان :