کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی گورننگ باڈی کا اجلاس، گذشتہ گورننگ باڈی کے اجلاس کے منٹس کو منظوری دی گئی

جو جو سرکاری محکمے واٹر بورڈ کے نادہندہ ہیں، ان سے بات کی جائے بصورت دیگر نادہندہ کے کنکشن کو منقطع کیا جائے، وزیر بلدیات سندھ

منگل 7 فروری 2017 23:20

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 07 فروری2017ء) کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی گورننگ باڈی کا اجلاس وزیر بلدیات سندھ و چیئرمین کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جام خان شورو کی صدارت میں منگل کو منعقد ہوا۔ اجلاس میں گورننگ باڈی کے ارکان مئیر کراچی وسیم اختر، وائس چیئرمین واٹر بورڈ و ایم پی اے ساجد جوکھیو، چیئرمین کراچی پورٹ ٹرسٹ وائس ایڈمرل (ر) شفقت جاوید، سیکرٹری بلدیات رمضان اعوان، سیکرٹری پی اینڈ ڈی، ایڈیشنل سیکرٹری صنعت و تجارت، سیکرٹری خزانہ سید حسن نقوی، کراچی چیمبر آف کامرس کے شمیم احمد، ڈی ایس ریلوے نثار احمد میمن، چیئرمین ڈی ایم سیز ملک فیاض، سید نئیر رضا، معید انور، سلمان بلوچ، جان محمد ،وائس چیئرمین محمد شاکر اور ایم ڈی واٹر بورڈ مصباح الدین فرید نے شرکت کی۔

(جاری ہے)

اجلاس میں گذشتہ گورننگ باڈی کے اجلاس کے منٹس کو منظوری دی گئی۔ اس موقع پر وزیر بلدیات سندھ جام خان شورو نے کہا کہ جو جو سرکاری محکمے واٹر بورڈ کے نادہندہ ہیں، ان سے بات کی جائے بصورت دیگر نادہندہ کے کنکشن کو منقطع کیا جائے۔ اسی طرح جو وفاقی حکومت کے محکمے ہیں ان کو بھی واجبات کی ادائیگی کے لئے نوٹس دے کر ان سے بھی بات چیت کی جائے اور اگر اس کے بعد بھی وہ ادائیگی نہیں کرتے تو چیف سیکرٹری کی معرفت سے وفاق کو لکھا جائے گا۔

صوبائی وزیر نے گورننگ باڈی کے ارکان کو رواں سال کراچی میں پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لئے شروع کئے گئے ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ کم و بیش 10 ارب سے زائد کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا ہے، جس میں 100 ملین گیلن یومیہ پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے پر سوا ارب روپے، 65 ملین گیلن اضافی پانی کو دھابیجی سے لانے کے لئے 7 ارب روپے، دھابیجی اور پپری پر سالہا سال پرانی مشینوں کی جگہ نئی جدید مشینری کی تنصیب پر ڈیڑھ ارب روپے کی رقم جاری کی گئی ہے اور ان پر کام بھی تیزی سے جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ K-4 منصوبے کے تمام فیز کے لئے 12 ہزار ایکڑ زمین حاصل کرلی گئی ہے اور اس کے پہلے فیز کے کام کا آغاز FWO کی معرفت شروع کردیا گیا ہے اور یہ آئندہ دو سال میں مکمل کرلیا جائے گا اور اسی دوران جلد ہی ہم فیز ٹو پر کام کا آغاز کردیں گے تاہم اس میں پانی کے حصول میں دشواری کو مدنظر رکھتے ہوئے کچھ اہم فیصلے کئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ K-4 منصوبے کے پہلے فیز پر کم و بیش 27 ارب روپے کی لاگت آئے گی، جس میں نصف رقم وفاق ادا کرے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سندھ حکومت نے حب سے پانی کی فراہمی کے لئے بھی پمپنگ اسٹیشن لگا دیا ہے جبکہ شہر میں 200 سے زائد غیر قانونی ہائیڈرینٹ مکمل طور پر ختم جبکہ 72 قانونی ہائیڈرینٹ میں سے 7 کے علاوہ تمام قانونی ہائیڈرینٹ بھی بند کردئیے گئے ہیں، جس سے شہریوں کو پانی کی فراہمی میں بہتری آئی ہے۔ صوبائی وزیر نے کہا کہ 2013 کے بلدیاتی ایکٹ کے تحت گورننگ باڈی میںکراچی کے تمام ڈسٹرکٹ چیئرمین کو بھی اس میں نمائندگی دی گئی ہے تاکہ عوام کی زیادہ اور اچھی طرح خدمت کی جاسکے۔

اس موقع پر اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ گورننگ باڈی کا اجلاس ہر ماہ منعقد کیا جائے گا۔ واٹر بورڈ کے ڈیزیز کوٹے کے حوالے سے بھرتیوں کے لئے سیکرٹری بلدیات کی زیر صدارت ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو تمام کیسز کی مکمل چھان بین کرکے رپورٹ گورننگ باڈی کے آئندہ اجلاس میں پیش کرے گی اور اس میں جوڈیشل کے ججز کو بھی آن بورڈ لیا جائے گا۔ اجلاس میں صنعتی علاقوں میں زیر زمین پانی کے نام پر واٹر بورڈ کی لائنوں سے کنٹریکٹر کے پانی چوری کے معاملے پر فیصلہ کیا گیا کہ اس سلسلے میں صنعتکاروں اور کنٹریکٹرز سے مٹینگ کی جائے گی اور اس کی رپورٹ بھی گورننگ باڈی میںپیش کی جائے گی۔

اجلاس میں کنڈی مین کی نئی بھرتیوں کے لئے منظوری کے ساتھ ساتھ 2011 سے 2016 تک بلک کنکشن کی فراہمی کی بھی منظوری دی گئی۔ اس موقع پر اس بات پر زور دیا گیا کہ آئندہ کسی بھی منصوبے کو پانی کے کنکشن کی فراہمی سے قبل تمام قانونی تقاضے اور ہائوسنگ اسکیموں کو کنکشن کی فراہمی سے قبل یونٹس کی مکمل معلومات کی فراہمی کے بعد کنکشنز گورننگ باڈی کی منظوری سے دیا جائے گا۔

اس موقع پر مئیر کراچی وسیم اختر نے کہا کہ ہماری اولین ترجیع عوام کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کی گورننگ باڈی کا اجلاس پر ماہ منعقد ہونے کے مثبت اثرات عوام پر بھی مرتب ہوں گے اور مسائل کا حل بھی ممکن ہوسکے گا۔ اس موقع پر کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر مصباح الدین فرید نے واٹر بورڈ کے حوالے سے مکمل بریفنگ دی اور بتایا کہ اس وقت شہر کو طلب کے مقابلے رسد میں کم و بیش 50 فیصد کمی کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ واٹر بورڈ کے ماہانہ اخراجات ڈیڑھ ارب جبکہ آمدنی 60 سے 65 کروڑ روپے کی ہے جبکہ سندھ حکومت کی جانب سے ماہانہ 50 کروڑ روپے کی بجلی کے بل کی مد میں خصوصی گرانٹ ملنے سے ادارے کو چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہر میں 17 لاکھ گھریلوں صارفین میں سے صرف 3 لاکھ سے ساڑھے تین لاکھ صارفین ہی بل کی ادائیگی کررہے ہیں جبکہ نرخ بھی انتہاہی کم ہونے سے مشکلات کا سامنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بل کی ریکوری میں جہاں ادارے کی کوتاہیاں ہیںوہاں عوام کو بھی چاہیے کہ وہ بل کی باقاعدگی سے ادا کریں۔ انہوں نے ممبران کو بتایا کہ شہر میں سیوریج کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے 36 نئی مشینوں کی خریداری کے لئے بھی وزیر بلدیات نے منظوری دی ہے اور اس پر بھی کام کیا جارہا ہے جبکہ شہر میں 470 کنڈی مین کی بھرتی کرکے انہیں تمام ڈی ایم سیز میں بھیجا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مئیر کراچی وسیم اختر کی جانب سے یونیورسٹی روڈ پر روڈ کی تعمیر سے قبل پانی کی کسی لائن کے بوسیدہ ہونے کی شکایات پر فوری طور پر ایکشن لیا گیا ہے اور جلد ہی اس کو تبدیل کردیا جائے گا۔ انہوں نے استدعا کی کہ گریڈ 16 سے زائد کے ملازمین کو سال میں ایک بار اس کی بیسک تنخواہ کے مساوی بونس دیا جائے، جس پر صوبائی وزیر و دیگر ارکان گورننگ باڈی نے کہا کہ اس سلسلے میں سیکرٹری بلدیات، سیکرٹری خزانہ اور دیگر دو ممبران کی کمیٹی تشکیل دے کر اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

متعلقہ عنوان :