پنجاب اسمبلی:میٹرو منصوبوں کے سوالوں کے جواب دینے سے گریز، کمشنری نظام میں اختیارات کا تعین کردیا گیا ، قانون منظور

Mohammad Ali IPA محمد علی جمعرات 2 فروری 2017 17:08

لاہور ( اْردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-ا نٹرنیشنل پر یس ایجنسی۔02 فروری ۔2017ء ) پنجاب حکومت نے بالواسطہ طور پر پنجاب اسمبلی کو ٹرانسپورٹ کے میٹرومنصوبوں کی تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے تاہم اسے یہ تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی ورکنگ اور وقار پر بھی سوال اٹھ گیا ہے اور سٹینڈنگ کمیٹیوں کیلئے سو موٹو اختیارات کا مطالبہ بھی دہرایا گیا ہے ۔

اسمبلی نے کمشنری نظام بحال ہونے پر اس کے افسروں کو اختیارات دینے سے متعلق سول ایڈمنسٹریشن بل بھی اپوزیشن کے واک آؤٹ کے دوران کثرت رائے سے منظور کرلیا ہے جمعرات کو پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں میں وقفہ سوالات میں معمول کے پینتیس کے بجائے سولہ سوالات ایجنڈے میں شامل کیے گئے جن میں سے دس سوالوں کے جواب اسمبلی کو موصول نہیں ہوئے جبکہ باقی سوالوں کے جواب دینے میں محکمہ ٹرانسپورٹ کے پارلیمانی سیکرٹری نواز چوہان کو شدید مشکلات کا سامنا رہا وہ ساتھی وزراء کی معاونت اور اپنے محکمے افسروں کی طرف سے ملنے والی ”چِٹوں “ سے بھی پوری طرح استفادہ نہ کرسکے پارلیمانی سیکرٹری نے وقفہ سوالات شروع ہونے پر خود ہی نشاندہی کردی کہ کچھ سوالوں کو جواب موصول نہیں ہوئے ، آئندہ جوابات کی فراہمی یقینی بنائی جائے گی جس پر سپیکر رانا محمد اقبال خان نے واضح کیا کہ یہ بات (عمل ) ٹھیک نہیں ہے ، آئندہ موقع نہیں ملے گا جس کے بعد حکومتی رکن امجد علی جاوید نے بھی نشاندہی کی آج کے ایجنڈے میں کل سولہ سوالات شامل کیے گئے لیکن ان میں سے بھی دس کے جواب موصول نہیں ہوئے ، ایسا پہلے بھی کئی بار ہوچکا ہے جس پر سپیکر نے کہا کہ میں نے محکمے پر واضح کردیا ہے کہ یہ آخری موقع ہے ۔

(جاری ہے)

جن سوالوں کے جوابات نہیں دیے گئے ان کا تعلق ٹرانسپورٹ کے میٹرو منصوبوں اور ان کی تفصیلات سے تھا، اجلاس کے دوران پیپلز پارٹی کے سردار شہاب الدین سیہڑ نے ان کے سوالوں کے جواب نہ دیے جانے کی شکایت کی تو سپیکر نے انہیں زیرو ااور میں بات کرنے کی تلقین کی مگر وہ مصر رہے تو وزیر قانون نے کہا کہ سوالوں کے جواب نہ آنے اور محکموں کے سیکرٹریوں کی اسمبلی میں غیر موجودگی کے بارے میں شکایت جائز ہے ۔

مناسب یہ ہوگا کہ آپ اپنے چیمبر میں مجھے اور اپوزیشن لیڈر کو بلا کر مشاورت سے ان معاملات کے بارے میں کمیٹی بنا لیں گے اور اس کے بعد کمیٹی کوتاہی ذمہ داروں کے بارے میں حکومت کو جو سفارش بھی کرے گی اس پر سخت ایکشن لیا جائے گا۔ اجلاس کے دوران جب مختلف کمیٹیوں نے اپنے امور انجام دینے کیلئے وقت میں توسیع کی درخواست کی تو پی ٹی آئی کے ڈاکٹر مراد راس نے کہا کہ وہ کمیٹی کیلئے توسیع کی اجازت تو طلب کررہے ہیں لیکن ان کا جی نہیں چاہتا کیونکہ کمیٹی کو اپنے کام کیلئے مقررہ مدت میں توسیع کیلئے تو کہا گیا لیکن اس کا ابھی تک ایک اجلاس بھی نہیں ہوا جبکہ وہ کمیٹی کے چیئرمین ہیں، انہوں نے کہا کہ جب تک سٹینڈنگ کمیٹیوں کو سو موٹو اختیارات نہیں دیے جاتے ، معاملات حل نہیں ہونگے تو سپیکر نے کہا کہ کمیٹیوں کو پورے اختیارات حاصل ہیں ۔

، اسی طرح احسن ریاض فتیانہ بھی کہا کہ معیاد میں توسیع کیلئے تو کہا جاتا ہے لیکن ان کی میٹنگ بھی کرائیں جس پر سپیکر نے اس ضمن میں متعلقہ حکام کو ہدایات جاری کردیں۔ اجلاس کے دوران ایوان نے سول ایڈمنسٹریشن کے مسودہ قانون کی منظوری دی جبکہ اپوزیشن کی ترامیم کثرتِ رائے سے رد کردیں ۔ اس قانون میں کمشنری نظام کی بحالی کے بعد اس نظام کے تحت کام کرنے والے افسروں کی اختیارات کا تعین کیا گیا ہے ، اپوزیشن اسے کاکا قانون قراردیکر رد کردیا اور اس کے خلاف ایوان سے واک آؤٹ بھی کیا ۔

اپوزیشن کا کہنا تھا کہ کمشنری نظام قیام پاکستان سے پہلے قابض غیر ملکیوں نے بنایا تھا ، آج پھر حکومت اٹھارہویں صدی میں واپس لوٹ رہی ہے او بلدیاتی اداروں کے منتخب عوامی نمائندوں کے اختیارات سلب کررہی ہے جبکہ وزیر قانون کی دلیل تھی کہ اپوزیشن نے بل کو پڑھے بغیر ہی اس کی مخالفت کی ہے ۔

متعلقہ عنوان :