پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں ختم ہوچکی ہیں۔ حکومت نے 3 سال کے دوران 9 اعشاریہ 75 فیصد کی اوسط سے شرح نمو کو برقرار رکھا۔اسحاق ڈار

Mian Nadeem میاں محمد ندیم بدھ 1 فروری 2017 15:32

پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں ختم ہوچکی ہیں۔ حکومت نے 3 سال ..

کراچی(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔یکم فروری۔2017ء) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملکی اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے جبکہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی پیش گوئیاں ختم ہوچکی ہیں۔مختلف خدشات اور تنقید کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے اپنی حکومت اور اس سے قبل حکمرانوں کے دور میں قرضوں میں ہونے والے اضافے کا موازنہ کیا۔

اسحاق ڈار کے مطابق گذشتہ حکومت نے اپنی حکومت کے پانچ سال (2008 تا 2013) کے دوران 7 ہزا ر833 ارب روپے کا قرضہ لیا، جس میں سالانہ 19 فیصد اضافہ ہوا جبکہ موجودہ حکومت نے گذشتہ 3 سال کے دوران 9 اعشاریہ 75 فیصد کی اوسط سے شرح نمو کو برقرار رکھا۔اسحاق ڈار نے بتانا کہ جون 2008 میں قرضوں سے جی ڈی پی کی کل شرح 53.1 فیصد تھی، جو ہماری حکومت سنبھالنے تک یعنی جون 2013 میں 60.2 فیصد تک پہنچ گئی، تاہم جولائی 2013 سے جون 2016 تک یہ شرح 60.2 پر مستحکم رہی جبکہ اس میں مزید اضافہ نہیں ہوا جو قرضوں کی ادائیگی میں استحکام کا واضح اشارہ ہے۔

(جاری ہے)

ان کا مزید کہنا تھا کہ مالی اور کرنٹ اکاونٹ کے خسارے ترقی پذیر ممالک کے لیے ناگزیر ہے، بہتر معاشی دیکھ بھال کے لیے ضروری ہے کہ ان دونوں خساروں کو حد میں رکھا جائے۔وفاقی وزیر کے مطابق ملک کے بیرونی قرضوں کے حوالے سے انتہائی مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے حالانکہ ملک پر واجب الادا قرضہ اوسطاً 5 ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ نہیں ہے، اور یہ 2021 تک برقرار رہے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ان ادائیگیوں سے کسی کی تشویش میں اضافہ نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ پاکستان 13-2012 اور 14-2013 کے دوران 6 ارب ڈالر تک کی ادائیگی بھی کرچکا ہے جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم بہت کم تھا۔اسحاق ڈار کے مطابق ان کی حکومت میں کل قرضوں کے اسٹاک میں اضافہ ہوا ہے تاہم کوئی بھی غیرجانبدار مالی ماہر اس بات کی تصدیق کرے گا کہ ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کے مقابلے میں اس کا حجم میں کتنا اضافہ ہوا۔

ان کے یہ بھی کہنا تھا کہ اسی طرح سروسنگ کے بوجھ کو بھی علیحدہ نہیں دیکھنا چاہیئے بلکہ زرمبادلہ کے ذخائر سے مقابلے میں دیکھنا چاہیئے۔وفاقی وزیر کے مطابق چند تجزیہ کار اکثر میڈیا میں بیرونی قرضوں کا حجم 73 ارب ڈالر بتاتے ہیں، وہ نجی اور عوامی قرضوں کو ملا دیتے ہیں جبکہ نجی قرضوں میں بینکس اور غیر مالیاتی نجی شعبے کے بیرونی ایکسچینج قرضے بھی شامل ہیں۔

وفاقی وزیرخزانہ نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ چند تجزیہ کار عوام کو مخصوص معلومات فراہم کرکے عوام کو گمراہ کررہے ہیں۔ان کے مطابق اس بیان کو جاری کرنے کا مقصد بیرونی اسٹیک ہولڈرز کو اس بات کی یقین دہانی کرانی تھی کہ پاکستان اپنے قرضوں کو مناسب انداز میں سنبھال رہا ہے اور کسی بھی ایسے قیاس کی تردید کرتا ہے کہ ملک قرضوں کی ادائیگی کے حوالے کسی خطرے میں ہے۔

متعلقہ عنوان :