اوبر ، کریم اور اے ون ٹیکسی سروس کو بند نہیں بلکہ ریگولیٹ کیا جا رہا ہے‘ ڈاکٹر عمر سیف

ٹیکسی سروس کمپنیاں فی الحال پاکستان میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کر رہیں، حکومت نے انہیں ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا انفرااسٹرکچر زیادہ بہتر نہیں، پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسی سروسز بہترین ہیں‘ چیئرمین پنجاب آئی ٹی بورڈ

منگل 31 جنوری 2017 23:22

اوبر ، کریم اور اے ون ٹیکسی سروس کو بند نہیں بلکہ ریگولیٹ کیا جا رہا ..
لاہور (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 31 جنوری2017ء) چیئرمین پنجاب انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی بورڈ ڈاکٹر عمر سیف نے کہا ہے کہ اوبر ، کریم اور اے ون ٹیکسی سروس کو بند نہیں بلکہ ریگولیٹ کیا جا رہا ہے ،ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا انفرااسٹرکچر زیادہ بہتر نہیں، پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسی سروسز بہترین ہیں ۔ ان خیالات کا اظہار انہو ں نے ارفع کریم ٹاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا ۔

عمر سیف نے کہا کہ ٹیکسی سسٹم کے تحت سڑکوں پر رش کو کم کرنے میں مددملی ہے ،مسافر ان ٹیکسی سروس میں سفر کو محفوظ سمجھتے ہیں اور ٹیکسی سروس سے امن و امان کی صورتحال پر قابو پانے میں مددملی ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ شہرمیں اس وقت 20ہزار گاڑیاں چل رہی ہیں ،ان کو بند کرنے کا سوچا بھی نہیں جا سکتا ، اوبر ، کریم اور اے ون ٹیکسی سروس کو بند نہیں ریگولیٹ کیا جا رہا ہے اور حکومت نے ان ٹیکسی سروس کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا ہے ، اس طرح کی ٹیکسی سروس بیرون ملک میں بھی ٹیکس سسٹم کے تحت چل رہی ہیں ، ہم بھی اسی نظام کے تحت چلانا چاہتے ہیں ۔

(جاری ہے)

عمر سیف نے اس بات کی وضاحت کی کہ ٹیکسی سروسزپر پابندی کے فیصلے پر نظرثانی کی جارہی ہے۔عمر سیف نے بتایا کہ اوبر اور کریم فی الحال پاکستان میں کوئی ٹیکس ادا نہیں کررہے اور پنجاب حکومت اس معاملے کو انوویٹو بزنس ماڈل کے تحت حل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر حکومت کی حکمت عملی دو نکات پر مبنی ہوسکتی ہے، پہلی یہ کہ جب یہ کمپنیاں لانچ ہوں تو انہیں ٹیکسی سروس سمجھا جائے یا پھر انہیں ایسی سروس تصور کیا جائے جسے حکومت قانون کے دائرے میں لاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم ان کمپنیوں کے ساتھ ٹیکسی سروس جیسا برتا ئونہیں کرنا چاہتے لیکن انہیں قانون اور ٹیکس کے دائرے میں آنا ہوگا، انہیں نئے ٹیکس قوانین کے تحت باضابطہ کاروبار کے طور پر رجسٹر ہونا ہوگا ۔جب ان سے نئے منصوبے کے حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ جیسا کہ ان کمپنیوں کے لیے ملائیشیا، مصر اور انڈونیشیا وغیرہ میں ٹیکس قوانین ہیں ہمارا ماڈل بھی اسی طرح کا ہوگا اور ان ممالک میں ایسی کمپنیوں کو 'نیٹ ورک سروس پرووائیڈرز' کہا جاتا ہے۔عمر سیف نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک کے لیے ایسی سروسز بہترین ہیں کیوں کہ ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا انفرااسٹرکچر زیادہ بہتر نہیں۔