بلدیہ عظمی کراچی کو انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لئے 12 ارب 60 کروڑ روپے فوری طور درکار ہیں

میونسپل یوٹیلٹی ٹیکسز کو دوبارہ بحال کرنے پر غور، بجٹ 8 ارب روپے کے خسارے میں ہے میئر کراچی وسیم اختر کا ’’اے پی پی‘‘ کو انٹرویو

منگل 31 جنوری 2017 23:03

کراچی ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 جنوری2017ء) بلدیہ عظمی کراچی کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی، ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام، فائر بریگیڈ ڈیپارنمنٹ کی بہتری، ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں کمی کو پورا کرنے جبکہ واجبات اور قرضوں کی ادائیگی سمیت شہری سہولتوں کی فراہمی اور انفرااسٹرکچر کی بہتری کے لئے فوری طور پر 12 ارب 60 کروڑ روپے درکار ہیں۔

میئر کراچی وسیم اختر نے ’’اے پی پی‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بلدیہ عظمی کراچی کو بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لئے 5 ارب روپے، ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے لئے 2 ارب روپے، فائر بریگیڈ ڈیپارنمنٹ کی بہتری کے لئے 5 کروڑ روپے، تنخواہوں اور پینشن کی مد میں کمی کو پورا کرنے لئے 3 ارب 30 کروڑ روپے سالانہ جبکہ واجبات اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے 1 ارب 20 کروڑ روپے شامل ہیں۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ بلدیہ عظمی نے شہریوں کو بہترین سروس کی فراہمی کو یقینی بنانے اور اپنے ملازمین کی صلاحیتوں میں اضافے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت فنڈز میں اضافے کے لئے منصوبہ بندی کر لی ہے۔ میئر کراچی وسیم اختر نے اپنی حکمت عملی کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ شہریوں سے ٹیکس کی وصولی کو شفاف بنانے پر سختی سے عمل درآمد کے ساتھ میونسپل یوٹیلٹی ٹیکسز کو دوبارہ بحال کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔

بلدیہ عظمی کی جانب سے لگائے گئے ٹیکس کی موجودہ ریکوری کی شرح پر انہوں نے کہا کہ سخت پالیسی اپناتے ہوئے وصولیوں کو بہتر بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں سخت پالیسی پر عمل درآمد کرنا پڑے گا کیونکہ ہمارا بجٹ پہلے ہی 8 ارب روپے کے خسارے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی بلدیاتی ایکٹ میں ترمیم کے تحت موجودہ صوتحال میں کے ایم سی سے ریونیو پیدا کرنے والے ادارے بشمول واٹر اینڈ سیوریج بورڈ، سولڈ ویسٹ مینیجمنٹ سے مقامی ٹیکسز کی وصولی صوبائی حکومت منتقل کر دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صرف فائر بریگیڈ ڈیپارنمنٹ، کے ایم سی ہسپتال، چارجڈ پارکنگ، چڑیا گھر مینیجمنٹ، بڑے نالوں کی صفائی کے ساتھ منتخب علاقوں میں بنیادی ڈھانچہ کی ترقی کو بلدیہ عظمی کے دائرہ اختیار میں رکھا گیا ہے۔ اس منظر نامے کے باوجود ہم کوشش کررہے ہیں کہ موجودہ وسائل میں رہتے ہوئے صورتحال کو بہتر کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیہ عظمی اپنے ملازمین کی تنخواہ اور پینشن سے متعلق واجبات کی ادائیگی کا بھی مقابلہ کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے متعلقہ اداروں کو متعدد مرتبہ مالیاتی خسارے کے بارے میں بتایا ہے جو کہ بلدیہ عظمی کی کارکردگی میں رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ وسیم اختر نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبوں کو آئین کی 18 ویں ترمیم کے تحت اختیارات کی منتقلی کا عمل بھرپور طریقے سے نہیں ہوا اور گذشتہ کئی سالوں سے بلدیہ عظمی مکمل اختیارات سے محروم ہے۔

ایک سوال کے جواب میں میئر کراچی نے کہا کہ بلدیہ عظمی کے ملازمین کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں میں اضافے کے لئے انہیں سندھ انسٹیٹیوٹ آف مینیجمنٹ میں تربیت دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ محدود وسائل میں رہتے ہوئے کوشش کی جاتی ہے کہ شہریوں کی بھرپور خدمت کو یقینی بنایا جائے لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ہمیں شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے یہاں تک کہ ضرورت مند مریضوں کو مفت ادویات فراہم نہیں کی جا سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ بلدیہ عظمی کے فائر بریگیڈ کے شعبے کو بھی ہنگامی بنیادوں پر بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ فائر بریگیڈ ڈیپارنمنٹ کے پاس 32 گاڑیاں ہیں جن میںسے 24 گاڑیاں قابل استعمال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلدیہ عظمی کے پاس آگ پر قابو پانے والے فوم کی خریداری کے لئے بھی بجٹ نہیں ہے جبکہ اسنارکل کی تبدیلی کے لئے بھی فنڈ درکار ہے۔

انہوں نے کہا کہ 2009ء میں میونسپل یوٹیلائیزیشن ٹیکس کا نفاذ عمل میں لایا گیا تھا جس کو اب بحال کیا جا رہا ہے مگر یہ شہر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ناکافی ہے کیونکہ شہر کو بہت سے چیلنجز درپیش ہیں۔ وسیم اختر نے کہا کہ کچرا اٹھانے کے لئے بھی فنڈز کی اشد ضرورت ہے، گذشتہ 5 سے زائد سالوں میں ناکافی انتظامات کی وجہ سے شہر میں کچرے کے ڈھیر لگ گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ شہر میں روزانہ 12 ہزار ٹن کچرا جمع ہوتا ہے جبکہ شہر کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے باوجود بھی 4 ہزار ٹن سے زائد کچرا اٹھایا نہیں جا سکتا، کچرے کے ڈھیر کے باعث شہریوں کی صحت کو خطرات لاحق ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ سندھ لوکل گورنمنٹ نے سندھ ویسٹ مینیجمنٹ بورڈ کے ذریعے چینی کمپنی کو صرف ضلع شرقی اور جنوبی سے کچرا منتقل کرنے کا کام سونپا ہے جس پر تاحال کام کا آغاز نہیں ہو سکا۔

انہوں نے کہا کہ 30 برساتی نالوں پر تجاوازات کا خاتمہ اور 8 ہزار کلومیٹر پر مبنی 33 اہم شاہراہوں کی مرمت جبکہ 37 پارکوں کی دیکھ بھال بلدیہ عظمی کے ذمہ ہے، بلدیہ عظمی محدود وسائل میں رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ بلدیہ عظمی کے وسائل میں اضافے پر پوچھے گئے سوال پر میئر وسیم اختر نے کہا کہ بلدیہ عظمی چارجڈ پارکنگ کے نظام کو بہتر کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بلدیہ عظمی کے زیراہتمام مختص پارکنگ میں صحیح طریقے سے گاڑیوں کی پارکنگ کی جاتی ہے جبکہ کھلی جگہوں اور پارکنگ گرائونڈ کے صحیح استعمال کے ذریعے آمدنی میں اضافے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مختلف پروجیکٹس کے حوالے سے وسیم اختر نے کہا کہ شہر کو ڈیسیلینیشن پلانٹس کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ شہر میں منصوبہ بندی کے تحت ترقیاتی کام کئے جائیں جبکہ اس سلسلے میں وفاقی حکومت کا تعاون درکار ہے، وفاقی حکومت کی گارنٹی کے بغیر بین الاقوامی اداروں سے قرضوں کا حصول ناممکن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ صوبائی حکومت کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ گرین بس سروس اور سرکل ریلوے منصوبوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر وسیم اختر نے وفاقی حکومت کے تعاون کو سراہتے ہوئے کہا کہ کراچی میں سرکل ریلوے منصوبے کی بحالی سے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل حل ہوں گے مگر شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یقینی بنانا ہوگا کہ شہر کی بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے ترقیاتی منصوبے بھی بنائے جائیں۔

متعلقہ عنوان :