گزشتہ 20 سال سے دودھ کا معیار چیک کرنے کا کوئی کام نہیں کیا گیا،سینیٹ قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی میں انکشا ف

عوام کو مضر صحت اشیاء خورد نوش کی فراہمی سے بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ، گزشتہ تین سالوں میں گھی کے 280 یونٹس اور756 برانڈوں کے نمونہ جات چیک کیے گئے ، ان میں سے 1377 صحیح ، 108 مضر صحت قرار دیئے گئے ،آئل کی285 یونٹس اور 696 برانڈوں میں سے 82 مضر صحت ثابت ہوئے ،بوتلوں میں پیک پانی کے 804 یونٹس اور 903 برانڈوں میں سی323 کیسز مضر صحت قرار دیئے گئے ہیں، ڈائریکٹر جنرل پی ایس کیو سی اے کی بریفنگ ملاوٹ کنڑول کرنے کیلئے ٹاسک فورس تیار کرنے کی ہدایت کردی ،پانی کی 87 فیکٹریاں سیل، کئی افسران کو معطل کئے ، شیور مرغی کی خوارک میں حرام گوشت ملایا جاتا تھا، کئی شیڈ فارمز سیل کردیئے ،عملہ کم ہے ،70 ٹیکنکل افراد کوبھرتی کیا جارہا ہے ،وفاقی وزیر رانا تنویر حسین کی بریفنگ کمیٹی کی اسلام آباد میں سپلائی پانی کا معیار ہرتین ماہ بعد چیک کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت

منگل 31 جنوری 2017 21:38

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 جنوری2017ء) سینیٹ قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کو قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشا ف کیا گیا کہ پاکستان میں20 سال سے دودھ کے معیار کو چیک کرنے کا کوئی کام نہیں کیا گیا، ڈائریکٹر جنرل پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنڑول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے )نے آگاہ کیا کہ عوام کو مضر صحت اشیاء خورد نوش کی فراہمی سے بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ، گزشتہ تین سالوں میں گھی کے 280 یونٹس اور756 برانڈوں کے نمونہ جات چیک کیے گئے ، جن میں سے 1377 صحیح آئے اور 108 مضر صحت قرار دیئے گئے ،آئل کی285 یونٹس اور 696 برانڈوں میں سے 82 مضر صحت ثابت ہوئے اور بوتلوں میں پیک پانی کے 804 یونٹس اور 903 برانڈوں میں سی323 کیسز مضر صحت قرار دیئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے کہا کہ عملہ کم ہے 70 ٹیکنکل افراد کی بھرتی کی جارہی ہے، انہوں نے تسلیم کیا کہ شیور مرغی کی خوارک میں حرام گوشت ملایا جاتا تھا جس پر کارروائی کرتے ہوئے کئی شیڈ فارمز کو سیل کیا گیا، ملاوٹ کنڑول کرنے کے لئے ٹاسک فورس تیار کرنے کی ہدایت کی ہے ،پانی کی 87 فیکٹریاں سیل کی ہیں اور کئی افسران کو معطل بھی کیا ہے ،کمیٹی نے ہدایت کی کہ اسلام آباد کا پانی ہرتین ماہ بعد چیک کر کے رپورٹ قائمہ کمیٹی اور سی ڈی اے کو فراہم کی جائے ، سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہا کہ سینیٹ اجلاس میں بھی معاملہ اٹھایا تھا کہ دودھ میں شیمپو اور دیگر مضر صحت چیزوں کی ملاوٹ کی جاتی ہے اس کی روک تھا م نہیں کی جارہی۔

(جاری ہے)

منگل کوء سینیٹ قائمہ کمیٹی سائنس و ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر عثمان سیف اللہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں پیک شدہ دودھ اور بوتلوں والاپینے کے پانی کا معیار ، اسلام آباد کی عوام کیلئے شفاف و معیاری پانی کی سپلائی کے حوالے سے بریفنگ کے علاوہ شفاف پانی کے منصوبے کے ملازمین کی مستقلی کے معاملات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔

ڈائریکٹر جنرل پاکستان سٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنڑول اتھارٹی (پی ایس کیو سی اے )نے قائمہ کمیٹی کو گھی ، پینے کے پانی اور پیک دودھ کے معیار اور کوالٹی بارے تفصیلا ت سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ وزیر سائنس ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین کی ہدایت پر عوام کو مضر صحت اشیاء خورد نوش کی فراہمی سے بچانے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں ۔ ملک کو دو سے تین زونز میں تقسیم کردیا گیا ہے اور پانچ زون تک بڑھایا جائے گا۔

ادارہ 1996 کے ایکٹ کے تحت وجود میں آیا تھا۔ بنیادی کام اشیاء خورد نوش کے معیار کو چیک کرنا ہے ۔یہ ادارہ بین الاقوامی تنظیموں کا ممبر بھی ہے ۔ اور بیرون ممالک تنظیمیوں سے معاہدات بھی کر رکھے ہیں ۔ ادارے نے بین الاقوامی تنظیموں کے معیار کے متعلق 16058 معیار اختیار کیے ہیں۔ چھ ہزار قومی سٹینڈر ترتیب دیئے گئے ہیں ۔181 ٹیکنیکل کمیٹیاں جبکہ نیشنل سٹینڈر کمیٹیاں 12 ہیں۔

جبکہ کل 22152 معیار قائم کیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے تین سالوں میں گھی کے 280 یونٹس اور756 برانڈوں کے نمونہ جات چیک کیے گئے ۔ جن میں سے 1377 صحیح آئے اور 108 مضر صحت قرار دیئے گئے ۔ آئل کی285 یونٹس اور 696 برانڈوں میں سے 82 مضر صحت ثابت ہوئے ۔ اور بوتلوں میں پیک پانی کے 804 یونٹس اور 903 برانڈوں میں سی323 کیسز مضر صحت قرار دیئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پچھلے دو سال سے ادارے کی کام میں نمایاں بہتری آرہی ہے ۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشا ف کیا گیا کہ پاکستان میں20 سال سے دودھ کو چیک کرنے کا کوئی کام نہیں کیا گیا ۔ سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ جب وہ وزیر تھے تب بھی پی ایس کیو سی اے کرپٹ ادارہ تھا اور اب بھی ادارے کی کارکردگی ویسے ہی ہے ۔ ملازمین کی ملی بھگت کے بغیر کوئی کام نہیں ہورہامیں نے خود 98 کروڑ ریکور کیے تھے وہ کہاں ہیں اس کی رپورٹ بھی دی جائے اور جب تک ملاوٹ کرنے والوں اور چیک کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت سزائیں نہیں رکھی جائیں گی پاکستان کی عوام کو ملاوٹ سے پاک اشیاء خورد نو ش کی فراہمی ممکن نہیں ہے ۔

جس پر ڈی جی پی ایس کیو سی آر نے کہا کہ اب ادارے میں بہتری آئی ہے۔ سینیٹر میاں محمد عتیق شیخ نے کہاکہ گھی کے معیار کے پراسس کی رپورٹ فراہم کی جائے اور ششہ ماہی بنیادوں پر چیک بھی کیا جائے ۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ادارہ جو بھی معیار مرتب کرے اس کو ویب سائٹ پر ڈالا جائے اور دوسرے ممالک کے ساتھ موازنہ بھی شامل کیا جائے ۔ اور بیرون ممالک سے بھی ٹیسٹ کروائے جائیں ۔

سینیٹر محمد اعظم خان سواتی نے پی ایس کیو سی اے کی لیبارٹریوں کے ٹیکنکل ملازمین کی تفصیلات فراہم کی جائے ۔ قائمہ کمیٹی کو بتایا گیا کہ دودھ میں ملاوٹ چیک کرنے کے حوالے سے 30 ستمبر2016 کو ایس آر او جاری ہوا۔ ایک ٹیکنیکل کمیٹی بھی قائم کی ہے ۔ پاکستان میں 22 کمپنیاں دودھ سپلائی کر رہی ہیں۔ ڈی جی پی ایس کیو سی اے کے ادارے کا لوگو بھی کچھ کمپنیاں غلط طور پراستعمال کر رہی تھیں۔

اور سینٹر میاں محمد عتیق شیخ کے سوال پر ڈی جی نے کہا کہ خشک دودھ کو چیک کرنے کیلئے مینڈٹری لسٹ میں لا رہے ہیں۔ مارچ تک رولز مرتب ہو جائیں گے ۔ اسلام آباد کو شفاف پینے کے پانی کے معاملے کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا ۔ سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ اسلام آباد کے پینے کے پانی کیلئے جو فلٹریشن پلانٹ لگائے گئے ہیں وہ جانوروں کے پینے کے قابل بھی نہیں ہے ۔

سی ڈی اے کی ذمہ داری ہے کہ اسلام آباد کی عوام کو شفاف پانی فراہم کرے ۔ چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آر نے کہا کہ 70 فیصد نمونے ٹھیک نہیں آئے چار سال بعد پانی کا معیار چیک کیا جاتا ہے ۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے ہدایت کی کہ اسلام آباد کا پانی ہرتین ماہ بعد چیک کر کے رپورٹ قائمہ کمیٹی اور سی ڈی اے کو فراہم کی جائے ۔ڈائریکٹر سپلائی سی ڈی اے نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ37 فلٹریشن پلانٹ اسلام آباد میں لگائے گئے ہیں ۔

28 کام کر رہے ہیں ۔ 12 کی واٹر کوالٹی رپورٹ ہمار ے پاس ہے جس پر سینیٹر اعظم خان سواتی نے کہا کہ تمام فلٹریشن پلانٹ کے پانی کا ٹیسٹ رپورٹ ادارہ کرائے ۔ میں بھی کرا رہا ہوں اور ہر چھ ماہ بعد پورے اسلام آباد کے پانی کا پی سی آر ڈبلیو آرٹیسٹ کرا کے رپورٹ کمیٹی کو فراہم کی جائے ۔ قائمہ کمیٹی کو شفاف پانی کے منصوبے کے ملازمین نے بتایا کہ پی سی آر ڈبلیو آر ایک میگا پراجیکٹ تھا ۔

اب مستقبل ادارہ بن چکا ہے ۔ پراجیکٹ ملازمین کیلئے 158 پوسٹیں مل چکی ہیں۔ 90 فیصد ملازمین پراجیکٹ سے نان ڈویلپمنٹ میں شفٹ ہوئے ہیں ۔ ہم ٹیکنکل ملازم تھے منصوبہ ختم ہونے پر ہمیں ایک سال سے تنخواہ تک نہیں ملی اور نہ ہی مستقل کیا گیا ہے۔ لیبارٹریوں میں اب ٹیکنکل افراد کام نہیں کر رہے ۔ وزیراعظم کو ہماری مستقبل تقرری کیلئے جو سمری بھیجی گئی تھی وہ صحیح نہیں تھی ۔

جس پر سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے کہا کہ لوگ ہائیکورٹ گئے تھے ۔ عدالت نے معاملہ کیبنٹ کمیٹی کو بھیج دیا ہے ۔ جس پر کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ قائمہ کمیٹی کیبنٹ کمیٹی کے ساتھ معاملہ اٹھائے گی تاکہ منصوبے کے ملازمین کو مستقبل کیا جا سکے اور لیبارٹریاں بھی ٹھیک طریقے سے کام کر سکیں ۔ قائمہ کمیٹی کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز محمد اعظم خان سواتی ، حاجی مومن خان آفریدی ، پروفیسر ساجد میر، میاں محمد عتیق شیخ کے علاوہ وزیر برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین ، سیکرٹری سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ، چیئرمین پی سی آر ڈبلیو آراور ڈی جی پی ایس کیو سی اے و دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی ۔ (وخ )

متعلقہ عنوان :