سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی نے رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی ترمیم کیساتھ منظوری دیدی

خفیہ ادارے کسی شخص کے اٖغوا سے متعلق 3دن کے اندر تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند ہوں گے، ہر20سال بعد سرکاری ریکارڈ کو پبلک کیا جائیگا ،سرکاری ریکارڈ ضائع کرنے پرجرمانہ ایک لاکھ اور2 سال سزادی جائیگی ،انفارمیشن کمیشن 3ممبران پرمشتمل ہوگا جن میں ایک 22گریڈکا آفیسر،ریٹائرڈ جج اور ایک سول سوئٹی کا نمائندہ ہوگا،جو بھی ممبر ہوگا اسکی عمر 65سال سے کم ہوگی،انفارمیشن کمیشن کے ممبران کے پاس سول کورٹ کے جج کے اختیارت ہوں گے ،انفارمیشن کمیشن کی رپورٹ سال میں2مرتبہ رپورٹ شائع کرنے کا پابند ہوگا،کمیشن متعلقہ اداروں کو معلومات کومنظر عام پر لانے کا پابند ہو گا،بل کا متن یا10سال کی بجائے ہر2سال بعد سرکاری دستاویزات کو منظر عام پر لانا چاہیے تاکہ عوام کو پتا چلے کہ میری اور پرویز رشید کی وزارت کیوں گئی ،سینیٹر مشاہد اللہ

منگل 31 جنوری 2017 14:54

سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی نے  رائٹ ٹو انفارمیشن بل کی ترمیم کیساتھ منظوری ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 جنوری2017ء) سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی نے ''رائٹ ٹو انفارمیشن بل2016کی ترمیم کیساتھ منظوری دیدی۔مجوزہ قانون کے تحت تمام خفیہ ادارے کسی بھی شخص کے اٖغواء سے متعلق 3دن کے اندر تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند ہوں گے، ہر20سال بعد سرکاری ریکارڈ کو پبلک کیا جائیگا ،سرکاری ریکارڈ ضائع کرنے پرجرمانہ کم از کم ایک لاکھ اور2 سال سزادی جائیگی، بل کے تحت،انفارمیشن کمیشن 3ممبران پرمشتمل ہوگا جن میں ایک 22گریڈکا آفیسر،ریٹائرڈ جج اور ایک سول سوئٹی کا نمائدہ ہوگا،انفارمیشن کمیشن کے ممبران کے پاس سول کورٹ کے جج کے اختیارت ہوں گے ،انفارمیشن کمیشن کی رپورٹ سال میں2مرتبہ رپورٹ شائع کرنے کا پابند ہوگا،کمیشن متعلقہ اداروں کو معلومات کومنظر عام پر لانے کا بھی پابند ہو گا۔

(جاری ہے)

منگل کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین سینیٹر فرحت اللہ بابر کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا،اجلاس میں کمیٹی ممبران کے علاوہ وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب،سیکر ٹری وزارت اطلاعات صباء محسن اور دیگر متعلقہ حکام نے شرکت کی۔اجلاس میں رائٹ ٹو انفارمیشن بل پر شق وار غور وخوص کیا گیا۔سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ اگر کسی شخص کیساتھ کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو متاثرہ فیملی کو اختیار دیا جائے کہ وہ ویڈیو کی مدد سے اصل حقائق کو سامنے لا سکے جس پر وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اطلاعات تک رسائی کیلئے دوسرے قوانین پر بھی نظر ثانی ہونی چاہیے ،پھر متاثرہ فیملی کو اصل معلومات مل سکیں گی۔

سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور اہم معلومات متاثر شخص کی حد تک محدود رکھی جائیں، ایسی معلومات جو کرائم میں معاون ہوں میڈیا کو رسائی نہ دی جائے،معلومات میڈیا پرآنے سے اداروں کو تحقیقات میں مشکلات پیش آئیں گی،سی سی ٹی فوٹیج سامنے آنے پر تحقیقاتی ادارے کسی نتیجے پر نہیں پہنچ پاتے ۔اس موقع پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حال ہی میں اسلام آباد سے کچھ لوگوں کواغواء کیا گیا ہے ،کیمروں کی مدد سے اصل لوگوں پر پہنچا جا سکتا ہے،جس پر مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس شق پر مزید غور خوص تک ملتوی کیا جائے۔

انفارمیشن کمیشن کے قیام کے حوالے سے شق پر بریفنگ دیتے ہوئے وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ اس قانون کے لاگو ہونے کے بعد وزیر اعظم پاکستان 6ماہ کے اندر انفارمیشن کمیشن کی منظوری دیں گے جو3ممبران پر مشتمل ہوگا،چیئر مین کمیٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیشن ممبران کا انتخاب وزیر اعظم کے پاس نہیں ہونا چاہیے،انفارمیشن کمیشن میں ایک 22گریڈکا آفیسر،ریٹائرڈ جج اور ایک سول سوئٹی کا نمائندہ شا مل ہونا چاہیے۔

انفارمیشن کمیشن کے ممبران کے پاس سول کورٹ کے جج کے اختیارت ہوں گے،جو بھی ممبر ہوگا اسکی عمر 65سال سے کم ہوگی۔وزیر مملکت اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا کہ انفارمیشن کمیشن سال میں 1مرتبہ پارلیمنٹ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گا،جس پر کمیٹی نے انفارمیشن کمیشن کی رپورٹ سال میں ایک کی بجائے 2مرتبہ پیش کرنے کی متفقہ طور پر ترمیم کی۔ بل میں انفارمیشن کمیشن کے رولز6ماہ میں بنانے کی شق پر ترمیم کرتے ہوئے کمیٹی نے ہدایت کی کہ بل کی منظروی کے بعد حکومت انفارمیشن کمیشن کے رولز 6ماہ کی بجائے 4مال میں بنائے۔

چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ پارلیمنٹ قوانین بنا دیتی ہے مگر اس کے رولز سالوں سال بنائے نہیں جاتے،وزارت اطلاعات کمیشن کے قیام کیلئے وقت ضائع کئے بغیر 4ماہ کے اندر رولز ترتیب دے۔ کمیٹی چیئر مین فرحت اللہ بابر نے کہا کہ مجوزہ بل میں سرکاری معلومات پبلک کرنے کے حوالے سے شق شامل نہیں ہے ،دنیا بھر میں اطلاعات تک رسائی کے قانون میں یہ شق شامل ہوتی ہے،اس موقع پر چیئر مین کمیٹی نت تجویز دی کہ ہے ہر20 سال بعد سرکاری دستاویزات کو عام کیا جائے۔

جس پر سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ 20سال کی بجائے 10سال بعد سرکاری معلوامات پبلک کی جانی چاہیں،جس پر سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ 20یا10سال کی بجائے ہر2سال بعد سرکاری دستاویزات کو منظر عام پر لانا چاہیے تاکہ عوام کو بھی پتا چلے کہ میری اور پرویز رشید کی وزارت کیوں گئی۔ جس پر کمیٹی نے متفقہ طور پر ہر20سال بعد سرکاری معلومات پبلک کرنے کی منظوری دیدی۔مجوزہ قانون کے تحت سرکاری ریکارڈ ضائع کرنے پرجرمانہ کم از کم ایک لاکھ اور متعلقہ افسرکو2 سال تک سزادی جائیگی، بل کے تحت تمام خفیہ ادارے کسی بھی شخص کے اٖغواء سے متعلق 3دن کے اندر تحریری طور پر آگاہ کرنے کے پابند ہوں گئے

متعلقہ عنوان :