پانامہ کیس ،نئی عدالتی نظیر قائم کرنے سے کوئی روک نہیں سکتا،سپریم کورٹ

کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی تو ہمیں ڈانٹا گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں،ہمیں نظر نہیں آ رہے، غلطی ہو سکتی ہے کہ ہمیں نظر نہ آیا ہو، کیاہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں،کیا حمد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے، ہمیں بتایاگیا کہ قرض کی رقم 34ملین ڈالرزتھی، کمپنی سے قرض کی سیٹلمنٹ حتمی طور پر کتنی رقم میں ہوئی ، نیب اور ایف آئی اے نے معاملے کا کچھ نہیں کیا،عدالت کو معاملے کو پذیرائی دینے کااختیارہے، سپریم کورٹ اس بنیاد پر کیس کو سن رہی ہے ،وزیراعظم کے وکیل نے کہا جائیداد بچوں کی ہے،ان سے پوچھیں، مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں،آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں،اگر کچھ نہیں بتایا اور کہا جائے کہ کرلیں جوکرناہے تو پھر کیاہوگا ،جسٹس آصف سعید کھوسہ پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی، وزیراعظم کی تقریرمیں قطری سرمایہ کاری کا ذکرنہیں،جسٹس گلزار حسین نوازکے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے، سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا، اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے، وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں ، فیکٹری کی رقم کے 12 ملین درہم کیسے ملے طارق شفیع جانتے تھے، انہیں قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکرکردیتے، 1993 سے 1996 کے درمیان یہ فلیٹس کس کی ملکیت تھے، بڑے گہرے تعلقات تھے کہ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی، کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے، 13 سال فلیٹس میں رہے ، انگلی تو اٹھے گی، میاں شریف نے بچوں کو سرمایہ کاری سے آگاہ نہیں کیاتھا،میاں شریف اور قطری خاندان میں طے پائے گئے شرائط،ضوابط کہاں ہیں ،جسٹس اعجاز الاحسن یقیناً آپ کو قدموں پر ہی کھڑا ہوناہے گھٹنوں پر نہیں، پانامہ کیس 2حصوں پر مشتمل ہے،ایک حصہ نااہلی اور دوسرا دیگر الزامات پر مشتمل ہے،نااہلی کی تفتیش کا دائرہ اختیار مختلف ہے، اگر آپ دائرہ سماعت پر واپس جانے کا کہیں گے تو اس کا حامی نہیں ،آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں،جسٹس شیخ عظمت سعید

منگل 31 جنوری 2017 13:56

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 31 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ نیب اور ایف آئی اے نے اس معاملے کا کچھ نہیں کیا،عدالت کو معاملے کو پذیرائی دینے کااختیارہے،اب سپریم کورٹ اس بنیاد پر کیس کو سن رہی ہے، اگر معاملہ چیف ایگزیکٹو کا ہوتو پھر کیاکیاجائے، ، نئی عدالتی نظیر قائم کرنے سے کوئی ہمیں روک نہیں سکتا۔

منگل کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

(جاری ہے)

نیب نے پاناما کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ میں حدیبیہ پیپر مل ریفرنس میں اسحاق ڈار کی معافی کا ریکارڈ پیش کردیا ۔ سماعت کے آغاز پر پراسیکیوٹر جنرل نیب وقاص قدیرڈار نے حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس پر اپیل دائر نہ کرنے سے متعلق اجلاس کی کارروائی کے منٹس جمع کروا دئیے۔ وقاص ڈار نے منٹس پڑھتے ہوئے بتایا کہ اجلاس میں پراسیکیوٹر نیب نے اپیل دائر نہ کرنے کی تجویز دی اورچیئرمین نیب نے تجویز سے اتفاق کیا۔

ججز کے فیصلے میں اختلاف کی وجہ سے اپیل دائرنہیں کی گئی۔جسٹس گلزار احمد نے استفسار کیا کہ ایسے کتنے مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی، جس پر وقاص قدیرنے بتایا کہ ایسے لاتعداد مقدمات ہیں جن میں اپیل دائر نہیں کی گئی۔ جسٹس اعجازنے ریمارکس دیئے کہ ایسے بھی کئی مقدمات ہیں جن میں ججز نے متفقہ فیصلہ دیا لیکن نیب نے اپیل دائر کی۔

جسٹس آصف کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ جب نیب کی باری آئے گی تو اس پہلو کو زیرغورلائیں گے۔حسن نوازاورحسین نواز کے وکیل سلیمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری کرتے ہوئے کہا کہ ریکارڈ سے ثابت ہے کہ فیکٹری کی فروخت سے 12 ملین درہم ملے جس پر جسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ بینک کے واجبات کس نے ادا کیے۔ کیا 75 فیصد شیئرز کی فروخت پر بینک کو قرضے کی ادائیگی ہوئی۔

سلمان اکرم نے بتایا کہ 75 فیصد حصص کی فروخت سے ملنے والے 21 ملین درہم قرض کی مد میں ادا کیے، جس پرجسٹس اعجاز افضل نے استفسار کیا کہ فیکٹری کے باقی واجبات کا کیا ہوا جس پر سلمان اکرم نے جواب دیا کہ ہو سکتا ہے فیکٹری کے منافع سے واجبات ادا کیے گئے ہوں۔سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم کی تقریرمیں بھٹو کے دورمیں 6 نئی فیکٹریاں لگانے کا ذکر ہے، جسٹس گلزار نے استفسار کیا کہ پاکستان میں 6 نئی فیکٹریاں لگائیں تو گلف فیکٹری کی کیا ضرورت تھی، وزیراعظم کی تقریرمیں قطری سرمایہ کاری کا ذکرنہیں۔

جسٹس آصف کھوسہ نے استفسارکیا کہ مشینری کے خرید و فروخت کا وزیراعظم نے کہیں ذکرنہیں کیا، میں نے کتاب میں صفحہ گم ہونے کی بات کی جس پر ہمیں ڈانٹا بھی گیا کہ سارے ثبوت موجود ہیں اور ہمیں نظر نہیں آ رہے، غلطی ہو سکتی ہے کہ ہمیں نظر نہ آیا ہو، کیا دبئی فیکٹری کی مشینری حسین نواز نے خریدی تھی، جس پرسلمان اکرم راجا نے بتایا کہ دبئی فیکٹری کی مشینری سے جدہ مل تیار کی گئی، اس کے علاوہ مل میں نئی مشینری بھی لگائی گئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ حسین نوازکے مطابق لندن فلیٹس قطری سرمایہ کاری سے ملے، سوال یہ ہے کہ لندن فلیٹس کے لیے سرمایہ کہاں سے آیا۔ اس کہانی کا اہم حصہ قطری سرمایہ کاری ہے، وزیراعظم کی تقریر اور طارق شفیع کے بیان حلفی میں قطر میں سرمایہ کاری کا ذکر نہیں، 5 نومبرکو قطری کا خط اور 12 نومبر کو طارق شفیع کا بیان حلفی آیا، دوسرے بیان حلفی میں بہتری لائی گئی، فیکٹری کی رقم کے 12 ملین درہم کیسے ملے طارق شفیع جانتے تھے، انہیں قطری سرمایہ کاری کا علم تھا تو بیان حلفی میں ذکرکردیتے۔

سلمان اکرم نے جواب میں کہا کہ دبئی مل ایک حقیقت ہے،کاروبار پر کنٹرول میاں شریف کا تھا، طارق شفیع گلف فیکٹری کے روزانہ کے معاملات نہیں دیکھتے تھے، طارق شفیع کو بیان حلفی سے پہلے تمام تفصیلات معلوم تھیں، ایسا نہیں کہ ان سوالوں کے جوابات نہیں ہیں، جو سوالات مجھ سے پوچھے جا رہے ہیں وہ طارق شفیع کو بطور گواہ بلا کر پوچھ لیے جائیں، 12 ملین درہم کی رقم الثانی فیملی کو6 اقساط میں سرمایہ کاری کے لیے دی گئی، کرنسی اونٹوں پرلاد کردینے کی بات بعید از قیاس ہے، بڑے نوٹوں میں ادائیگی کی جائے تو کرنسی کا حجم دو کتابوں سے زیادہ نہیں ہوگا۔

سلمان اکرم نے عدالت کو بتایا کہ لندن فلیٹس کی 1993 سے 1996 میں مجموعی پاکستانی مالیت 7 کروڑ بنتی ہے، یہ کوئی راز نہیں کہ شریف فیملی کے بچے شروع سے وہاں رہ رہے ہیں، شریف فیملی نے فلیٹس 2006 میں خریدے، شریف فیملی اس وقت آف شور کمپنیوں کی مالک نہیں تھی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ 1993 سے 1996 کے درمیان یہ فلیٹس کس کی ملکیت تھے، جس پر سلمان اکرم نے کہا کہ شریف فیملی نے 1993 سے 1996 کے درمیان لندن کے فلیٹس نہیں خریدے۔

2006 سے پہلے کمپنیوں کے بیریئر سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے، الثانی خاندان نے 1993 سے 1996 میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے، رحمان ملک رپورٹ کے مطابق 93 میں یہ کمپنیاں انس پارکر کے پاس تھیں۔ جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے استفسار کیا کہ کیا ہم رحمان ملک کی رپورٹ درست تسلیم کر لیں۔ کیا حماد بن جاسم سے پوچھ لیں انہوں نے یہ فلیٹس کب خریدے۔

سلمان اکرم نے کہا کہ یہ پوچھنے کی ضرورت نہیں، شریف فیملی کے بچے وہاں رہ رہے تھے، جس پر جج صاحبان نے استفسار کیا کہ شریف فیملی کے بچے وہاں کیسے رہ رہے تھے، حسن اور حسین نواز کب سے وہاں رہنا شروع ہوئے۔ سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ خاندانی تعلقات کی بدولت 1993 سے ان فلیٹس میں حسن اور حسین رہتے تھے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ بڑے گہرے تعلقات تھے کہ شریف فیملی 13 سال تک فلیٹس میں رہائش پذیر رہی۔

سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ شریف خاندان فلیٹس کا کرایہ ادا کرتا تھا، الثانی خاندان کے پاس لندن میں بہت سے فلیٹس ہیں، عدالت مفروضوں کو نہ دیکھے، لندن فلیٹس التوفیق کمپنی کے پاس گروی نہیں رکھے گئے، شیزی نقوی نے رحمان ملک رپورٹ کی بنیاد پر فلیٹس کی ملکیت شریف خاندان کی بتائی تھی۔عدالت کے استفسار پر سلمان اکرم راجا نے بتایا کہ شیزی نقوی پاکستانی شہری اور التوفیق کمپنی کے ساتھ وابستہ ہے، اس کے بیان کی نقل موجود ہے لیکن تصدیق شدہ نہ ہونے کی وجہ سے فائل نہیں کی۔

جس پر جسٹس عظمت سعید شیخ نے ریمارکس دیئے کہ شیزی نقوی کے برطانوی عدالت میں پیش بیان حلفی کی نقل جمع کرا دیں کیونکہ برطانوی عدالت نے شیزی نقوی کے بیان حلفی پر ہی فلیٹس ضبطگی کا نوٹس جاری کیا تھا۔ سلمان اکرم راجا نے کہا کہ برطانوی عدالت کا حکم عبوری تھا، التوفیق کمپنی کے واجبات 34 ملین ڈلر کے نہیں تھے۔ جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا رقم ادائیگی پر برطانیہ کی عدالت نے چارج واپس لیا۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ التوفیق کیس سے ثابت نہیں ہوتا کہ شریف فیملی 1999 سے پہلے فلیٹس کی مالک تھی،انگلی میرے موکل کی طرف نہیں اٹھ سکتی وہ اپنے موقف پر قائم ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں فلیٹس 2006 میں خریدے گئے، آپ 13 سال فلیٹس میں رہے، انگلی تو آپ کی طرف اٹھے گی۔وکیل نے کہا کہ 2006سے پہلے کمپنیوں کے سرٹیفکیٹس الثانی خاندان کے پاس تھے،الثانی خاندان نی1993-96میں آف شور کمپنیوں کے ذریعے فلیٹس خریدے ۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ یقیناً آپ کو قدموں پر ہی کھڑا ہوناہے گھٹنوں پر نہیں،سلمان اکرم راجہ نے شیزی نقوی کا بیان حلفی پڑھ کرسنایا،وکیل نے کہا کہ التوفیق کمپنی کی16ملین ڈالرز کیلئے برطانوی عدالت میں مقدمہ دائرکیا۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ ہمیں بتایاگیا کہ قرض کی رقم 34ملین ڈالرزتھی،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ 34ملین ڈالرز کے قرض کا معاملہ نہیں تھا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ کمپنی سے قرض کی سیٹلمنٹ حتمی طور پر کتنی رقم میں ہوئی ،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ آٹھ ملین ڈالرز میں قرض کی سیٹلمنٹ ہوئی۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ قرض کیلئے کیا چیز گارنٹی میں دی گئی ،وکیل نے کہا کہ حدیبیہ پیپرز ملز کیلئے التوفیق کمپنی سے پاکستان میں قرض لیاگیا،حدیبیہ پیپرزملز کی مشینری بطور گارنٹی رکھی گئی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ یہ تمام ریکارڈ ایس ای سی پی کے پاس ہونا چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ کمپنی سے سیٹلمنٹ ہوئی تو حسن اور حسین برطانیہ میں تھی ،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ حسین نواز اس وقت پاکستان میں زیرحراست تھے،حسین کو سیٹلمنٹ کا مکمل علم نہیں کیونکہ یہ2000کے اوائل کی بات ہے،اکتوبر1999سے دسمبر2000تک پورا شریف خاندان زیرحراست تھا،حسن نواز1999میںلندن میں قیام پذیرتھے،عدالت حقائق جاننے کیلئے کمیشن بناسکتی ہے،سابق چیف جسٹس کے صاحبزادے کے حقائق جاننے کیلئے بھی کمیشن بناتھا۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ پانامہ کیس 2حصوں پر مشتمل ہے،ایک حصہ نااہلی اور دوسرا دیگر الزامات پر مشتمل ہے،نااہلی کی تفتیش کا دائرہ اختیار مختلف ہے،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ محمود نقوی کیس میں ارکان نے دوہری شہریت کو تسلیم کیا۔حج،کرپشن،این آئی سی ایل،میموگیٹ مقدمات کے حوالہ جات موجود ہیں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نیب اور ایف آئی اے نے اس معاملے کا کچھ نہیں کیا،عدالت کو معاملے کو پذیرائی دینے کااختیارہے،اب سپریم کورٹ اس بنیاد پر کیس کو سن رہی ہے،وکیل نے کہا کہ ادارے کچھ نہیں کر رہے پر چیزیں عدالت کے راستے میں رکاوٹ نہیں۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ اگر معاملہ چیف ایگزیکٹو کا ہوتو پھر کیاکیاجائے، ،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ چیف ایگزیکٹو اداروں کے سربراہوں کا تقرر اکیلے نہیں کرتے،تقرری میں اپوزیشن سے بھی مشاورت ہوتی ہے،عدالت اداروں کو تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ نئی عدالتی نظیر قائم کرنے سے کوئی ہمیں روک نہیں سکتا،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ضرور کریں لیکن قانون کے مطابق کریں۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ اگر آپ دائرہ سماعت پر واپس جانے کا کہیں گے تو اس کا حامی نہیں،واپس جانے کو ہم تیار نہیں،آگے بڑھنے میں ہمیں کوئی رکاوٹ نہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میں تو صرف قانون پر عملدرآمدکاکہہ رہاہوں،عدالت 184تین کے مقدمے میں سزا نہیں دے سکتی،فیصلے میں موجود ہیں کہ عدالت نے درست تحقیقات کویقینی بنایا،وزیراعظم کی تقریرکودیکھناہے تو ریکارڈ کو سامنے رکھاجائے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ عدلت صرف غیرمتنازع حقائق پر ہی فیصلہ دے سکتی ہے،وکیل نے کہاکہ حقائق متنازع نہیں تھے،اس لیے مشرف کے خلاف براہ راست فیصلہ دیاگیا،عمران خان نے عدالت میں کہا ہمارے کام صرف الزام لگاناہے،مختلف فریق کوئی ثبوت سامنے نہیں لائے،یہاں ٹرائل نہیں ریکارڈ کا جائزہ لیاجارہاہے،دوسری طرف سے کوئی شواہد نہیں آئے،وزیراعظم کی تقریر مستردنہیں کر سکتے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کے وکیل سلمان بٹ نے کہا تقریرسیاسی تھی،مخدوم علی خان نے کہاتقریر عمومی نوعیت کی تھی۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ حسین نواز کی نااہلی عدالت سے نہیں مانگی گئی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کے وکیل نے کہا جائیداد بچوں کی ہے،ان سے پوچھیں مریم سے پوچھا تو انہوں نے کہا وہ ٹرسٹی ہیں،آپ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ نہیں،اگر کچھ نہیں بتایا اور کہا جائے کہ کرلیں جوکرناہے تو پھر کیاہوگا ،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ میں یہ جوا نہیں کھیلوں گا،مجھ سے شیخ جاسم اور میاں شریف کے معاملات بتانے کی توقع نہ کی جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا میاں شریف نے بچوں کو سرمایہ کاری سے آگاہ نہیں کیاتھا،میاں شریف اور قطری خاندان میں طے پائے گئے شرائط،ضوابط کہاں ہیں،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ آگاہ کیاتھا کہ اس کی دستاویزات عدالت میں جمع ہیں۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ سرمایہ کاری کی رقم20سال قطرمیں پڑی رہی،کاروباری شراکت دارنے تفصیلات کیوں نہیں دیں۔

سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ شیخ کو بلائیں کٹہرے میں لاکرکھڑا کریں،محمد بن جاسم نے کہامیاں شریف نے سرمایہ حسین کو دینے کی خواہش کی۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ میاں شریف کی رقم ان فلیٹس کی خریداری میں استعمال ہوئی ،میاں شریف کے انتقال کے بعد تمام جائیداد ورثا کو جانی چاہیے تھی۔پانامہ کیس کی سماعت کل بدھ تک کیلئے ملتوی کردی گئی ۔