مظلوم کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانے پر پابندیاں لگتی ہیں توہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں‘ حافظ محمد سعید

پیر 30 جنوری 2017 23:50

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 30 جنوری2017ء) امیر جماعةالدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ مظلوم کشمیریوں کیلئے آواز اٹھانے پر پابندیاں لگتی ہیں توہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں۔ ملک کا دفاع اورکشمیریوں کی مدداگر جرم ہے تو ہم یہ کام کرتے رہیں گے۔ بھارت و امریکہ سی پیک کیخلاف سازشوں اور پاکستان کیخلاف مذموم منصوبوں کی راہ میں جماعةالدعوة کو بہت بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

مسئلہ صرف ہماری جماعت کا نہیں ملک کا ہے۔ انڈیا امریکہ کے ذریعہ پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے۔وطن عزیز کے دفاع اور بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے ہمیں متحد ہو کر کردار ادا کرنا ہے۔اگر پابندیاں لگیں تو عدالتوں سے رجوع کریں گے۔ بھارتی دبائو کے باعث ہم پر پابندی لگانے کی باتیں کی جارہی ہیں۔

(جاری ہے)

قومی سطح پر کشمیر پاکستان کی شہ رگ والا قائد اعظم کا موقف تسلیم کیا جائے۔

حکومت کشمیریوںکو مایوس کرنے والی پالیسیاں نہ بنائے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے لاہور سے اسلام آبادجبکہ اسی طرح کراچی اور پشاور سے اسلام آباد تک کارواں چلائیں گے۔ ان خیالا ت کاا ظہار انہوںنے مقامی ہوٹل میں سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کی نشست کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر جماعةالدعوة کے مرکزی رہنما پروفیسر حافظ عبدالرحمن مکی، محمد یحییٰ مجاہد و دیگر بھی موجود تھے۔

حافظ محمد سعید نے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ہماراجرم کشمیریوں کے ساتھ کھڑاہونا ہے۔آج امریکہ انڈیا کے ساتھ ہے اور اس کی بات سنتا ہے۔ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے بعد نریندر مودی کو فون کیا اور اس کے مطالبات مانے جارہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کشمیر کے مسئلہ پر جس طرح یہ عوام میں جارہے ہیں اور مسئلہ کشمیر کو اٹھا رہے ہیں یہ ہمارے مفاد میں نہیں ہے۔

ہم نے 2017ء کو کشمیر کے نام کرنے کا اعلان کیا۔ ملک بھرمیں جلسوں، آل پارٹیز کانفرنسوں کا انعقاد کیا۔ ہم ایک ایک فرد کے پاس جا کر پاکستان کو کشمیر کیلئے کھڑا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہمارا اس سال کا ہدف ہے۔ جب میں نے کشمیری لیڈروں کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران یہ اعلان کیا تو انڈیا نے بہت شور مچایا‘ ہمیں اس وقت ہی توقع تھی کہ اب ہماری جماعت کیخلاف کچھ نہ کچھ کیا جائے گا۔

انہوںنے کہاکہ مجھے خوشی ہے کہ جماعةالدعوةآج یہ موقف لیکر کھڑی ہے۔ ہم نے اللہ کے فضل و کرم سے سندھ اور بلوچستان میںلوگوں کی خدمت کی ہے۔نریندر مودی نے برسراقتدار آتے ہی سندھ کے ہندوئوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ انڈیا میں آجائو۔ ہم یہاں آ پ کیلئے مہاجر کالونیاں بناتے ہیںہم نے اس سازش کا توڑ کرتے ہوئے سندھ کے دور دراز علاقوں میں کروڑوں روپے مالیت سے کنویں کھدوائے اور سولر انرجی سے وہاں فصلیں اگانے کی کوشش کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندوئوں نے مودی سرکار کی آواز پر کان نہیں دھرا اور انہوںنے پاکستان سے محبت کا برملا اظہار کیا۔

اسی طرح ہم نے خضدار، مشکے اور آواران جیسے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جہاں علیحدگی کی تحریکیں تھیںوہاں واٹر پروجیکٹ لگائے۔ راشن تقسیم کیا،میڈیکل سنٹر اور ڈسپنسریاں بنائیں ‘ ایمبولینسیں چلائیں۔ اسی طرح بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کیا۔ ان رفاہی و فلاحی خدمات کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ لوگ پاکستانی پرچم اٹھا کر پاکستان زندہ باد ریلیاں نکال رہے ہیں۔

ہمارا یہ کردار اللہ کے دشمنوں کو برداشت نہیں ہے۔انہوںنے کہاکہ گلگت بلتستان اور شمالی علاقہ جات میں جماعةالدعوة نے میڈیکل سنٹر بنائے ہیں۔ سیلاب زدگان کی ہر ممکن مدد کی ہے۔ چترال ، شمالی علاقہ جات میں ہم کروڑوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ سی پیک کیخلاف ان کے سازشوں کے منصوبے ناکام ہو رہے ہیں۔ وہ جماعةالدعوة کو اپنے ان مذموم منصوبوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔

وہ ایسے ہی جماعةالدعوة پر پابندی نہ لگانے کی صورت میں پاکستان کو دھمکیاں نہیں دے رہے۔ہم چاہتے ہیں کہ میڈیا یہ آواز اٹھائے کہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کیا خدمات انجام دے رہی ہی آپ حق اور انصاف کا ساتھ دیں۔ ہم پوچھتے ہیں کہ آخر اس جماعت کاجرم کیا ہی اور انڈیا و امریکہ کو ہم سے کیا تکلیف ہی میں سمجھتاہوں کہ یہ مسئلہ امریکہ کا نہیں بلکہ انڈیا کا ہے۔

وہ اپنی حیثیت جتلا کر امریکہ کو استعمال کر رہا ہے۔امریکہ بھی انڈیا کو اپنا اتحادی قرار دیتے ہوئے سمجھتا ہے کہ اسے انڈیا کی ضرورت ہے۔ انہوںنے کہاکہ امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کو جس طرح افغانستان میں اس کا ساتھ دینا چاہیے تھا اس نے نہیں دیا۔ وہ چاہتے تھے کہ پاکستان امریکہ کا ساتھ دیتے ہوئے اپنا ملک تباہ کروا لیتا۔میں سمجھتاہوں کہ پاکستان اگر ان کی توقعات کے مطابق پورا نہیں اترا تو یہ اچھی بات ہے۔

حافظ محمد سعید نے کہاکہ امریکہ افغانستان میںا نڈیا کو لیکر گیا ہے۔ وہ پاکستان کو یہاں سے نقصان پہنچانا چاہتے ہیںلیکن ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی طرح انڈیا بھی یہاں نہیں ٹھہر سکے گا۔ ہمیں مضبوط حکمت عملی کے ساتھ کام کرنا ہے۔ کشمیر کی طرح یہاں بھی ہمیں یکسو ہونا چاہیے۔ اگرہم پر پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو ہم پھر بھی اپنا کام جاری رکھیں گے۔

ہم نے تھرپارکر سندھ میں تقریبا ایک ہزار کنویں کھدوائے ہیںمزید دوسو کنویں تعمیر کروا رہے ہیں۔سولر انرجی کے پروجیکٹ لگانے سے امسال وہاں گندم اور چاول کی فصل ہوئی ہے۔ گلگت بلتستان، چترال اور بلوچستان میں ہم نے حکمت عملی سے انڈیا کے منصوبے ناکام بنانے ہیں۔ انڈیا بین الاقوامی سہارا لیکر پاکستان پر دبائو بڑھا رہا ہے۔ ہم نے اس ملک کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے دفاع کیلئے کردار ادا کرنا ہے۔

آج کل جنگیں صرف گولی سے نہیں لڑی جارہیں۔ہمارا مسئلہ صرف جماعت نہیں یہ ملک ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔پاکستان محفوظ ہے تو اسی سے کشمیر کی آزادی ملے گی اور اگر اس پر زد پڑتی ہے تو اس کا نقصان ہے۔ مسئلہ صرف جماعت کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے ۔پورے پاکستان میں ہمارے خلاف ایک ایف آئی آر نہیں دکھائی جاسکتی۔ہم پوچھتے ہیں کہ کیا ملک کی خدمت اور کشمیریوں کی مدد کیلئے کھڑاہونا ہمارا جرم ہے۔

اگر اسے کوئی جرم سمجھتاہے تو ہم یہ کام کرتے رہیں گے۔ انہوںنے کہاکہ ہم نے پاکستان کے دفاع اور بیرونی سازشوں کے توڑ کیلئے بڑا کردار ادا کرنا ہے۔ کشمیر کی آزادی سے پاکستان کی تکمیل ہو گی۔ اس کی ترقی اور حفاظت ضروری ہے۔ ٹرمپ جو کچھ کر رہا ہے مسلمانوں کو باہم متحدہوجانا چاہیے۔ اگر یورپی یونین بن سکتی ہے تو مسلمان اپنی یونین کیوں نہیں بنا سکتی مسلمانوں کو اپنی عالمی عدالت انصاف بنانی چاہیے جہاں وہ آپس کے لڑائی جھگڑے حل کر سکیں۔

ہمیں اپنی معاشی پالیسیاںخود ترتیب دینی چاہئیں۔ اگر یورو اور ڈالر بن سکتا ہے تو مسلمان بھی اپنی کرنسی بنا سکتے ہیں۔ مسلمانوں کے وسائل ان کی آزادیوں اور ملکوں کے تحفظ کیلئے استعمال ہونے چاہئیں۔ ہمارا دفاع ایک ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو بہت کچھ دیا ہے۔ یہ سارے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مضبوط پاکستان ہی عالم اسلام کے دفاع کیلئے کردارادا کر سکے گا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ ہم نے کشمیریوں کو حوصلہ دینا ہے اور حکومت پر دبائو بڑھانے کیلئے بڑے پروگرام کریں گے۔ لاہور سے اسلام آباد اور کراچی و پشاور سے اسلام آباد تک کارواں چلائیں گے۔ ہم پر پابندیاں لگتی ہیں تو عدالتوںکا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ انڈیا ہمیشہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں امریکہ پاکستان پر دبائو بڑھاتا ہے اور پھر ہمارے خلاف اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔

پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے جماعةالدعوة کے حق میں فیصلے دیے اب بھی ان شاء اللہ عدالتوں میں جائیں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میںا نہوںنے کہاکہ انڈیا نے ماضی میں جھوٹا پروپیگنڈا کر کے یو این سے ہمارے خلاف فیصلے کروائے۔ ہم نے بانکی مون کو خط لکھ کر اپنا موقف واضح کیااور کہا کہ ہمارے خلاف کوئی ثبوت ہے تو لیکر آئو ہم کسی بھی بین الاقوامی عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہیں۔

انہوںنے کہاکہ مسئلہ کشمیر پر پوری قوم کا اتفاق رائے پایا جاتا ہے یہ کوئی پانامہ لیکس کا مسئلہ نہیں ہے جس میں کسی کا اختلاف ہو۔ ہر شخص اس بات کا عزم کرے کہ ہم نے اس تحریک میں حصہ ڈالنا ہے۔ اگر ہم عوامی سطح پر متحرک ہوں گے تو حکومت کو بھی جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے تیار کر سکیں گے۔ یہ ہر اعتبار سے ہماری ذمہ داری ہے۔ اگر کشمیری مایوس ہوتے ہیں تو تاریخ ہمیںمعاف نہیں کرے گی اور اس کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔

حکومت و اپوزیشن سمیت سب جماعتوںکو چاہیے کہ وہ باہمی اختلافات ختم کریں اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ہمیں قومی سطح پر کشمیرکو پاکستان کی شہ رگ تسلیم کرنا چاہیے ۔ کشمیری ہر قسم کی رکاوٹوں کے باوجود میدان میں پاکستانی پرچم اٹھائے ہوئے ہیں ہمیں بھی کھل کر ان کی مددکرنا ہے۔ کشمیر کے مسئلہ پر علاقائی اور قوم پرست جماعتیں بھی ان کی مدد کا زبردست جذبہ رکھتی ہیں۔

شاہ زین بگٹی پچاس ہزار نوجوان کشمیریوں کی مدد کیلئے بھجوانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ حکومت کی کشمیرپالیسی بالکل واضح ہونی چاہیے اور کشمیر پاکستان کی شہ رگ والا اصولی موقف رکھنا چاہیے۔ انڈیا نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اس کے باوجود ہو وہ کشمیر اٹوٹ انگ کی رٹ لگا رہا ہے۔ پوری قوم کشمیریوں کی مدد پر متفق ہے جو کوئی اس سے اختلاف کرے گااس کی سیاست کا بیڑہ غرق ہو جائے گا۔

متعلقہ عنوان :