سندھ کے عوام ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے ہیں،حقوق پر کبھی سودے بازی نہیں کی،سید مرا د علی شاہ

پیپلز پارٹی نے پانچ سالہ دور حکومت میں ء کے پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے عملی اقدام کئے، وزیراعلی سندھ

جمعہ 27 جنوری 2017 23:44

سندھ کے عوام ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے ہیں،حقوق پر کبھی سودے بازی ..
کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 27 جنوری2017ء) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں 1991ء کے پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کے لئے عملی اقدام کئے ہیں۔ سندھ کے عوام ہمیشہ پیپلز پارٹی کے ساتھ رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کبھی بھی عوام کے حقوق میں سودے بازی نہیں کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ پیپلز پارٹی میں آرہے ہیں اور بہت سارے لوگ آنا چاہتے ہیں لیکن ہم انہیں شامل نہیں کرنا چاہتے۔

جن لوگوں نے ہماری قیادت کو برا کہا، وہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو سندھ اسمبلی میں 1991ء کے پانی کے معاہدے کی خلاف ورزی کے حوالے سے ایوان میں پیش کی گئی تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے کیا۔

(جاری ہے)

وزیراعلیٰ سندھ نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ دریائے سندھ ایک دریا نہیں بلکہ اسے دریائوں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1859ء تک پانی کے ایشوز پر کوئی بڑا تنازعہ نہیں ہوا۔

پہلی مرتبہ 1859ء میں تنازعہ کھڑا ہوا۔ 1935ء میں اس حوالے سے انڈین گورنمنٹ ایکٹ آیا اور 1939ء میں حکومت نے رائو کمیشن بنایا جس نے یہ تسلیم کیا کہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے اور اسی کمیشن نے 2بیراج 16 کروڑ روپے کے اخراجات سے بنانے کی تجویز دی اور یہ بھی کہا کہ 2 کروڑ روپے پانچ ادا کرے گا۔ اس کے بعد پانی کی تقسیم کے حوالے سے دونوں صوبوں کے چیف انجینئرز مل بیٹھے اور 1945ء میں معاہدہ ہوا جو سندھ پنجاب معاہدہ کہلاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 19 مارچ 1948ء میں فیروزپور اور دیپالپور کے ہیڈ وارز انڈیا نے بند کردیئے تو اس وقت نیا مسئلہ کھڑا ہوا۔ اس سے سندھ متاثر نہیں ہوا تھا بلکہ پنجاب کے علاقے متاثر ہورہے تھے کیونکہ دریائے سندھ کے 70 فیصد پانی پر سندھ کا حق تسلیم کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے حصے میں جانے والے تین دریائوں کی وجہ سے پنجاب کے پانی میں جو کمی آئی اس کو دریائے سندھ سے پوری کرنے کی کوشش کی۔

اس حوالے سے چشمہ جہلم لنک کینال سمیت دو کینالز کا ایک پورا جال بچھایا گیا جو صرف دو کینالز نہیں بلکہ یہ کینالوں کا ایک جال ہے جس میں دریائے سندھ کا پانی ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے دریا میں شامل کرکے اپنی زمینوں کو سیراب کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 1960ء میں سندھ طاس معاہدہ ہوا ہے لیکن ہم 1959ء میں کوٹری بیراج سے آگے جانے والے پانی کا اندازہ لگاتے ہیں تو وہ 128 ملین ایکڑ فٹ رہا ہے اور کم سے کم ایک سال 8 ملین ایکڑ فٹ تھا۔

انہوں نے کہا کہ تربیلا بننے کے بعد یہ مقدار صرف 29 ملین ایکڑ فٹ رہ گئی ہے جبکہ آج ہم سالانہ 10 ملین ایکڑ فٹ کا مطالبہ کررہے ہیں جو 1991ء کے معاہدے میں تسلیم کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہر مرتبہ ہم نے قومی مفاد کے نام پر قربانی دی ہے لیکن صرف ہماری ہی قربانی کیوں۔ انہوں نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ کالا باغ ڈیم کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت نے ایک روپے بھی فنڈز نہیں رکھا۔

میں یہ چیلنج پہلے بھی کرتا رہا اور آج بھی کرتا رہا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ سی سی آئی کے اجلاس میں کچھ نہیں ہوتا، میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ وہ سی سی آئی کے حالیہ اجلاس کے منٹس دیکھیں، ہمارے صوبے سے ایک اور ممبر بھی ہیں، جن کا ایک لفظ بھی ریکارڈ پر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو عوام نے ہمیشہ منتخب کیا ہے اور وہ عوام کی خدمت کرتی ہے، اس لئے اب لوگوں کا رخ پیپلز پارٹی کی طرف ہے اور لوگ آرہے ہیں۔

کچھ لوگ آنا چاہتے ہیں مگر ہم انہیں نہیں لے رہے ہیں جنہوں نے ہماری قیادت کو برا کہا، وہ ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ لوگ ہم سے پوچھتے ہیں کہ جب ہماری پانچ سال حکومت رہی تو ہم نے کیا کیا۔ ہم نے 1991ء کے معاہدے پر عمل کرایا۔ چشمہ جہلم لنک کینال سمیت وہ کینالز بند کروائے جو معاہدے میں شامل نہیں تھے۔ یہاں لوگ گورنر ہائوس میں بیٹھ کر یقین دہانیاں کروارہے تھے کہ ہم کالا باغ ڈیم بنوادیں گے۔

اس اجلاس میں سب شامل تھے سوائے پیپلز پارٹی کے۔ ہم نے اپنے پانچ سالہ دور میں وفاق میں اپنی حکومت ہوتے ہوئے بھی چار بار کالا باغ ڈیم کے خلاف قرارداد منظور کی اور یہی وجہ ہے کہ کالاباغ ڈیم کا منصوبہ روک دیا گیا۔ جب تک پیپلز پارٹی ہے، اس وقت تک کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ بات بھی درست ہے کہ کچھ سالوں سے دریائوں کے پانی کی صورت حال میں بہتری آئی ہے۔

اس لئے ہماری زراعت میں بہتری آئی ہے اور ہماری پیداوار اضافی ہورہی ہے۔ 1999ء میں ایک شخص نے ایٹمی دھماکے کئے۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد کالا باغ ڈیم بھی بنا سکتا ہے مگر بینظیر بھٹو نے کمبو شہید کے مقام پر دھرنا دے کر اس منصوبے کو ناکام بنایا اور ان کی عدم موجودگی میں ہماری قیادت نے گریٹر تھل کینال کے خلاف مہم چلائی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یاد ہے کہ ہم نے کیا کیا ہے لیکن ان لوگوں کو بھی اپنا وہ کردار یاد کرنا چاہئے جنہوں نے صوبے کے ساتھ دھوکہ کیا۔ ہم صوبے کی بھلائی کے لئے اپوزیشن کے ساتھ چلنے کو تیار ہیں۔ وزیراعلیٰ سندھ نے اپنی طویل تقریر میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے تنازع کی طویل تاریخ بیان کی۔ #

متعلقہ عنوان :