1991ء کے پانی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے، ارکان سندھ اسمبلی کا مطالبہ

پنجاب کی جانب سے سندھ کیساتھ ہونیوالی زیادتی کو بند کیا جائے، پانی روکنے سے صوبے کی 22 لاکھ زرعی زمینیں سمندر برد ہوگئیں پانی روکنے کا سلسلہ جاری رہا تو 2050ء تک ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور حیدرآباد ،2070ء تک کراچی سمندر برد ہوجائیگا اگر سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کر اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا ہے تو وزیراعلیٰ سندھ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح معاہدوں کو پھاڑ کر پھینک کیوں نہیں دیتے

جمعہ 27 جنوری 2017 23:28

1991ء کے پانی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے، ارکان سندھ اسمبلی ..
Wکراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 27 جنوری2017ء) سندھ اسمبلی نے وفاق سے مطالبہ کیا ہے کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے پر مکمل عمل درآمد کیا جائے اور پنجاب کی جانب سے سندھ کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو بند کیا جائے۔ اگر زیادتی بند نہیں ہوئی تو ہم ہر قسم کے احتجاج کے لئے تیار ہیں۔ سندھ کا پانی روکنے کی وجہ سے سندھ کی 22 لاکھ زرعی زمینیں سمندر برد ہوگئیں اور اگر پانی روکنے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو 2050ء تک ٹھٹھہ، سجاول، بدین اور حیدرآباد جبکہ 2070ء تک کراچی سمندر برد ہوجائے گا۔

بھارت پاکستان کا پانی روک رہا ہے تو حکومت اس کے خلاف ہر فورم پر احتجاج کرے۔ یہ مطالبہ جمعہ کو سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی خاتون رکن خیرالنساء مغل کی تحریک پر بحث کے دوران کیا گیا جو 1991ء کے پانی کے معاہدے کی خلاف ورزی سے متعلق تھی۔

(جاری ہے)

بحث میں حصہ لیتے ہوئے صوبائی وزیر ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ پانی پر تنازع تقریباً 200 سال سے چل رہا ہے۔

اس حوالے سے مختلف اوقات میں مختلف کمیشن بنے اور معاہدے بھی ہوئے لیکن تحفظات کلی طور پر دور نہیں ہوسکے۔ اس موقع پر انہوں نے اپنی تقریر میں اس تنازع کے حوالے سے مکمل تاریخ بیان کی۔ ڈاکٹر سکندر میندھرو نے کہا کہ سندھ کی زمینیں سمندر کھارہا ہے۔ یہ سب کچھ پنجاب کی جانب سے پانی روکنے کی وجہ سے ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1984ء کے مقابلے میں پنجاب کی زرعی زمین میں 21 فیصد اضافہ جبکہ سندھ کی زرعی زمین میں 25 فیصد کمی آئی ہے۔

22 لاکھ ایکڑ زمین سمندر برد ہوگئی ہے کیونکہ سمندر کو روکنے کے لئے ایک مخصوص مقدار میں پانی چاہئے جو نہیں مل رہا۔ انہوں نے کہا کہ جہلم، چناب اور ستلج کا پانی سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کو دینے کے بعد پنجاب سندھ کے حصے کا پانی استعمال کررہا ہے جس کی وجہ سے ہماری زمینیں سمندر برد ہورہی ہیں۔ روزانہ 80 ایکڑ زمین ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی سب کو ملنا چاہئے۔

زیر زمین پانی کے وسائل پنجاب کے پاس زیادہ ہمارے پاس کم ہیں۔ اسی طرح بارشیں بھی وہاں پر زیادہ ہوتی ہیں اور یہاں پر کم۔ دریائے سندھ پر ہمارا حق تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے باوجود پنجاب ہمارا حق روک رہا ہے۔ اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو ہمیں خدشہ ہے کہ سندھ بنجر ہوجائے گا۔ ہم پنجاب کے اس رویے کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دریائے سندھ ایک تاریخی دریا اور دریائوں کا بادشاہ ہے ۔

مذہبی کتاب ’’وید‘‘ میں 30 مرتبہ دریائے سندھ کا ذکر جبکہ گنگا جمنا کا تین مرتبہ ذکر ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر سید سردار نے کہا کہ آج دنیا تسلیم کررہی ہے کہ دہشت گردی سے زیادہ خطرناک موسمی تبدیلی ہے۔ اس کی وجہ سے یقینا پانی کی کمی ہوگی اور پانی کی جان ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں پانی کے لئے ہوں گی۔ انہوں نے بھی مختلف تاریخی معاہدوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی انڈیا مخالفت کررہا ہے۔

اسے چلتے ہوئے دریا پر بجلی کے منصوبے قائم کرنے کی اجازت ہے لیکن بند باندھ کر پانی روکنے یا اس کا راستہ تبدیل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ مودی ہمیں دھمکی دیتا ہے کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم وہاں خون بہا رہے ہیں اور وہ ہمیں پانی دے رہا ہے ۔ ہمیں ان دھمکیوں کا بھی نوٹس لینا چاہئے۔ سید سردار احمد نے کہا کہ 1991ء کا معاہدہ صرف ایک دن میں ہوا۔

ایک اجلاس لاہور میں ہوا اور پھر حتمی اجلاس جام صادق کے گھر میں ہوا۔ ہمارے سیکریٹری اس میں شامل تھے لیکن انہوں نے بھی پنجاب کی حمایت کی۔ گریٹر تھل کینال کے خلاف ہم نے شدید احتجاج کیا مگر اس کا نوٹس نہیں لیا گیا اور معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ بھارت یقینا 1960ء کے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کررہا ہے، جس کا اسے کوئی حق نہیں۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ بھارت کے خلاف ہر فورم میں جائے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رکن خیر النساء مغل نے کہا کہ جام صادق کے دور میں 1991ء کے پانی کا معاہدہ ہوا جس کے مطابق ہمیں سالانہ 10 ملین ایکڑ فٹ پانی ملنا چاہئے تھا لیکن ہمیں 6 سال میں 10 ملین ایکڑ فٹ پانی ملا ہے جو کہ بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ سندھ کا پانی روک رہے ہیں، ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا زیریں سندھ میں رہنے والے انسان نہیں۔

کیا پانی ان کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیگر کے مقابلے میں سندھ میں پانی کی زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ہمیں مینگروز کے جنگلات، سمندر اور دیگر کے لئے بھی پانی کی ضرورت ہے۔ خیرالنساء مغل نے کہا کہ 1960ء کے معاہدے کے نتیجے میں ملنے والی رقم پنجاب میں خرچ کی گئی اور اس سے سندھ کو کوئی حصہ ملا اور نہ ہی کوئی منصوبہ شروع کیا گیا۔ پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ کے 120 گوٹھ سمندر برد ہوچکے ہیں۔

ہماری تاریخی بندرگاہ کیٹی بندر تباہ ہوگئی۔ 90 ہزار افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماہرین کی تحقیق کے مطابق اگر سمندر کے آگے بڑھے کا سلسلہ اسی طرح جاری رہا تو 2050ء تک ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور حیدرآباد جبکہ 2070ء تک کراچی بھی زیر آب آئے گا۔ ہمیں بھی اور سمندر کو بھی میٹھے پانی کی ضرورت ہے۔ صرف میٹھا پانی ہی سمندر کو آگے بڑھنے سے روک سکتا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے سید امیر حیدر شاہ شیرازی نے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے ہماری زمینیں برباد ہوگئی ہیں۔ ایک بڑا حصہ سمندر برد ہوا اور باقی کھارے پانی کی وجہ سے ناقابل استعمال رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں کیٹی بندر، شاہ بندر، گھارو چھان، 10، 10 یوسیز پر مشتمل تھے آج وہ ایک ایک یوسی پر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ 2050ء تک ٹھٹھہ، سجاول کا وجود مٹ جائے گا، اگر اس کو میٹھے پانی کا مخصوص حصہ نہیں ملا تو۔

اب صورت حال اس حد تک خراب ہوگئی ہے کہ کھارے پانی کے اثرات جامشورو تک پہنچ گئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ کے دیوان چند چاولہ نے کہا کہ سندھ کے حقوق کی بات صرف پانچ منٹ میں نہیں کرسکتا۔ اس کے لئے میں دن رات بول سکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا حق مارا جارہا ہے۔ وفاقی حکومت اس کا نوٹس لے اور ہمارے مسائل حل کرے۔ انہوں نے نام لئے بغیر پیپلز پارٹی کی قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ منٹ منٹ میں ہم کبھی مودی، کبھی نواز شریف بھائی کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن ان بھائیوں سے کام نہیں لے سکتے۔

آج ہم سب کو مل کر یہ عہد کرنا ہوگا کہ جب تک سندھ کو پانی نہیں دیا جاتا ہے، اسمبلی کا اجلاس نہیں کریں گے۔ سندھ کے حق کے لئے جہاں پر اور جس طرح احتجاج کرنا ہوگا کریں گے۔ ہم اپنے حق کے لئے ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔ صوبائی وزیر بلدیات جام خان شورو نے کہا کہ سندھ کا 70 فیصد علاقہ دیہی ہے اور ہماری کل آمدنی کا حصہ زراعت سے ہے لیکن پانی نہ ملنے کی وجہ سے ہماری زمین متاثر ہورہی ہے اور ہماری معیشت کو بھی نقصان ہورہا ہے۔

1991ء کے معاہدے پر شدید تحفظات ہیں لیکن اس کے باوجود ہم اس پر عمل درآمد چاہتے ہیں۔ اس معاہدے کے مطابق سالانہ 10 ملین ایکڑ فٹ پانی کوٹری بیراج سے آگے جانا چاہئے حالانکہ ہماری ضرورت 35 ملین ایکڑ فٹ ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے پر نظر ثانی کے لئے غور کیا جائے۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان نے کہا کہ 21 ویں صدی میں دو سب سے بڑے چیلنجز ہوں گے جن میں موسمیاتی تبدیلی اور پانی کی قلت۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے مختلف ذرائع استعمال کرنے ہوں گے اور ہنگامی بنیادوں پر اقدام کرنے ہوں گے۔ استعمال شدہ پانی کو قابل استمعال بنانے کے لئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ حاصل کرنا ہوگا۔ اسی طرح سمندر کے کھارے پانی کو قابل استعمال بنانے کے لئے عملی اقدام کی ضرورت ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) کے سعید نظامانی نے کہا کہ 1991ء کے پانی کے معاہدے کے مطابق پانی ملے تو ہماری ایک انچ بھی زمین غیر آباد نہیں رہے گی۔

ہمارا حال تو یہ ہے کہ پانچ چھ سال سے یہاں پر صوبائی وزیر زراعت ہی موجود نہیں۔ جو لوگ حکومت میں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی سی آئی میں اس معاملے کو کیوں نہیں اٹھایا جارہا۔ سندھ کے مسائل کے حل کے لئے ہم ہر سطح پر حکومت کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہیں۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن ہیر اسماعیل سوہو نے بھی 1991ء کے پانی کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے کا مطالبہ کیا۔

صوبائی وزیر ثقافت سردار علی شاہ نے کہا کہ ہمیں سندھ کی تہذیب اور ثقافت پر فخر ہے۔ دنیا اس کو قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے ۔ ہمارے حصے کا پانی ہمیں نہ ملا تو ہم احتجاج کریں گے۔ صوبائی وزیر تیمور ٹالپور نے کہا کہ آج بھارت پاکستان کو پانی کے حوالے سے دھمکیاں دے رہا ہے لیکن آج نواز شریف کی جگہ بلاول ہوتے تو اسے اس طرح کی دھمکیاں دینے کی جرات نہ ہوگی۔

ہم مودی کو بتادینا چاہتے ہیں کہ ہم نے ایٹم بم صرف رکھنے کے لئے نہیں بنایا ہے۔ ہم مریں گے تو مار کر مریں گے ویسے نہیں مریں گے۔ مسلم لیگ فنکشنل کی خاتون رکن نصرت بانو سحر عباسی نے کہا کہ جن لوگوں نے 1991ء کے معاہدے کے بعد حکمرانی کی، وہ خاموش کیوں رہے۔ ہمیں اپنی زبان کے صدر اور وزیراعظم کے ہونے پر فخر ہے لیکن ہمارے صدر نے اپنے پانچ سالہ دور میں کیا کیا، اس دور میں انہوں نے یہ بات کیوں نہیں کی۔

اگر سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے اور اس کو اس کے حصے کا پانی نہیں مل رہا ہے تو وزیراعلیٰ سندھ بھی ذوالفقار علی بھٹو کی طرح معاہدوں کو پھاڑ کر پھینک کیوں نہیں دیتے۔ وہ اگر ایسا کرکے آتے تو ہم انہیں سلام پیش کرتے۔ اس موقع پر انہوں نے ایجنڈے کی کاپیاں بھی پھاڑ کر پھینک دیں۔ نصرت سحر عباسی نے کہا کہ سینیٹ میں اپوزیشن کیا کررہی ہے۔

اسمبلی میں آواز کیوں نہیں اٹھ رہی ہے۔ اگر 2050ء میں ٹھٹھہ، بدین، سجاول اور حیدرآباد جبکہ 2070ء میں کراچی بھی سمندر برد ہورہا ہے تو ذوالفقار کیوں اور کس کے لئے کیسے بسایا جارہا ہے۔ سندھ میں پانی چوری کرنے والوں کو بھی سزا دی جائے۔ تحریک انصاف کی خاتون رکن سیما ضیاء نے کہا کہ ہم سندھ کے مسائل کے حل کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جہاں ضرورت پڑے گی، ہم آواز اٹھائیں گے۔

پنجاب نے اپنے حق میں آواز اٹھائی اور وہاں ترقی کرکے دکھادی۔ ہم ایسا کیوں نہیں کررہے ہیں۔ کیا ہم چھوٹے بند تعمیر نہیں کرسکتے تھے یا پانی ذخیرہ کرنے کے دیگر ذرائع تعمیر نہیں کرسکتے۔ صوبائی وزیر صنعت منظور وسان نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ کالا باغ ڈیم نہیں بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے حق میں بینظیر بھٹو کی قیادت میں تاریخی کردار ادا کیا گیا، جس سے پوری قوم واقف ہے اور یہ بھی قوم جانتی ہے کہ کالاباغ ڈیم کے حق میں کس نے بیانات دیئے اور کس نے ریلیاں نکالیں۔

20 سال تک ضیاء الحق اور مشرف کی گود میں کون حکومت کرتا رہا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد 2007ء تک پیپلز پارٹی کو صرف چار ساڑھے چار سال تک حکومت کا موقع ملا۔ باقی عرصے میں کون حکومت میں تھا، سب جانتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کراچی والوں سے بھی شکایت ہے کہ پیپلز پارٹی کا طرح آپ کا بھی کردار ہونا چاہئے تھا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر ایم کیو ایم کے ارکان نے احتجاج کیا۔

منظور وسان نے کہا کہ سندھ کے پانی پر ہونے والی بحث کے دوران اندرون سندھ کے پانی کی بات کرنا یہ سازش لگتی ہے۔ منظور وسان نے کہا کہ کالاباغ ڈیم کی حمایت اور سندھیوں پر گولی چلانے کی وجہ سے حکومت ملی ہے۔ انہوں نے نام لئے بغیر ہی کہا کہ روز روز اخبار میں جگہ نہیں ملتی ہے۔ ایم کیو ایم کی خاتون رکن رعنا انصار نے کہا کہ 25 سال بعد بھی ہم کالاباغ ڈیم کو رو رہے ہیں مگر خود کوئی پانی کا ذخیرہ تعمیر کرنے کے لئے تیار نہیں۔

مسلم لیگ فنکشنل کے رفیق بانھبن نے کہا کہ ہمیں سندھ کے حقوق کے لئے متحد ومنظم ہونا پڑے گا اور ایک دوسرے پر تنقید سے گریز کرنا چاہئے۔ ایم کیو ایم کے سید وقار حسین شاہ نے کہا کہ اگر پنجاب معاہدے کے مطابق سندھ کو پانی فراہم نہیں کررہا ہے تو ہمیں اپنے حق کے لئے ہر سطح پر جانا ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر سکندر شورو نے کہا کہ میں ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنے والوں کے عمل کی مذمت اور اس پر احتجاج کرتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کے حق میں کون تھا اور کس نے پریس کانفرنس کی تھی۔ کل یہ لوگ ضیاء الحق اور مشرف کی گود میں نظر آرہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ 1991ء کا معاہدہ عجلت میں ہوا۔ واپڈا ایک متنازع ادارہ ہے، اس کو فوری طور پر ختم کیا جائے اور پنجاب یہ تسلیم کرے کہ اس نے سندھ کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے صابر قائمخانی نے کہا کہ عالمی قانون کے مطابق پانی پر سب سے آخر والوں کا حق سب سے پہلے تسلیم کیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے کامران اختر نے کہا کہ اگر پنجاب سندھ کا پانی روک رہا ہے، تو سندھ جواب کے طور پر گیس کیوں نہیں روک رہا ہے۔ ہم سندھ کے مسائل کے لئے حکومت کے ساتھ ہیں۔ کراچی کے شہری بھی پانی کو ترس رہے ہیں۔ صوبائی وزیر محمد علی ملکانی نے کہا کہ سمندر شہروں، زمینوں کو تباہ کررہا ہے۔ 1932ء میں کیٹی بندر ایک میونسپل کمیٹی اور اس کی آبادی 30 ہزار تھی۔

آج یہ صرف 500 افراد کا ایک گائوں رہ گیا ہے۔ سمندر کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لئے میٹھا پانی کوٹری بیراج سے آگے چھوڑنا ہوگا۔ صوبائی وزیر نثار کھوڑو نے کہا کہ یہ خوشی کی بات ہے کہ 1991ء کا معاہدہ جن لوگوں نے کیا تھا، وہ بھی آج اس معاہدے پر تنقید کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اوروں کے نام نہیں بتائوں گا لیکن سندھ سے اس معاہدے پر جام صادق علی اور مظفر شاہ نے دستخط کئے تھے جبکہ پنجاب سے غلام حیدر وائیں اور شاہ محمود قریشی نے کئے۔ انہوں نے کہا کہ سید مراد علی شاہ جب سندھ کے وزیر زراعت تھے تو چشمہ جہلم لنک کینال بند کرادیا اور یہ کینال 2008ء سے 2013ء تک بند رہی۔ پیپلز پارٹی کی شمیم ممتاز اور ریحانہ لغاری نے بھی بحث میں حصہ لیا۔