آج ایک اور قطری خط آگیا ہے، لگتا ہے یہ تلور کے شکار کے اثرات ہیں،عمران خان

مشرف کی آمریت اورنوازشریف کی نام نہاد جمہوریت میں کوئی فرق نہیںہے،ایف بی آر بھی پرانی تاریخوں میں کاغذات بنا بنا کر ان کی مدد کر رہا ہے،سربراہ تحریک انصاف کی سپریم کورٹ کے باہرمیڈیا سے بات چیت

جمعرات 26 جنوری 2017 23:08

آج ایک اور قطری خط آگیا ہے، لگتا ہے یہ تلور کے شکار کے اثرات ہیں،عمران ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 26 جنوری2017ء) تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہاہے کہ میں یہ سب کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے نہیں کررہا۔ ساری اپوزیشن حکومت سے جواب چاہتی ہے۔۔ ہم نے تو 4 سوال ا ٹھائے تھے۔جب پارلیمنٹ میں ان کا جواب نہیں ملا تو ہم نے عدالت آنے کافیصلہ کیا۔یہ بات انہوں نے سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

انہوں نے کہا کہ آج ایک اور قطری خط آگیا ہے۔ لگتا ہے یہ تلور کے شکار کے اثرات ہیں۔ جیسے کیسے کیس آگے بڑھ رہا ہے ان کے کاغذات بھی بنتے جارہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ جب 12 اکتوبر کو نوازشریف کاتختہ الٹا گیا تھا تو قوم کے ساتھ مل کرخوشیاں منائی تھیں کیونکہ نوازشریف اس دور میں امیرالمومنین بننا چاہتے تھے۔

(جاری ہے)

تمام اپوزیشن جماعتیں ان کی مخالف تھیں۔مشرف کی آمریت اورنوازشریف کی نام نہاد جمہوریت میں کیا فرق ہے۔ہم کہتے ہیں نوازشریف نے پارلیمنٹ اورسپریم کورٹ میں جھوٹ بولا ہے اس کی سزا میں مجھ پرکیس بنایا گیا ہے۔ جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات ہورہی ہے اور شیخ رشید کو لال حویلی سے نکالنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے عوام باشعور ہیں وہ قطری خط کی حقیقت سے واقف ہیں۔

ہمارا سوال صرف اتنا ہے کہ نوازشریف نے جب تقریریں کیں توقطری خط کاذکر کیوں نہیں کیا. انہوں نے کہا کہ ملک کا وزیراعظم دولت چھپانے کے لئے عوام سے جھوٹ بولتا ہے۔ ریاستی وسائل کا استعمال کرتا ہے۔ وہ ایک ڈکٹیٹر بننا چاہتا ہے اس لیئے کسی کا جواب نہیں دیتا۔انہوں نے کہا کہ آج ایک نیا قطری خط سامنے آیا ہے۔ ایف بی آر بھی پرانی تاریخوں میں کاغذات بنا بنا کر ان کی مدد کر رہا ہے۔

یہ اپنی دولت چھپانے کے لیئے جیسے چھوٹ بول رہے ہیں اور ان کے درباری بھی، یہ اپنے گھر والوں کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اگرقطری خط اصلی ہے تو گزشتہ 8 ماہ میں اس کاذکر کیوں نہیں کیا گیا حسین نواز نے یہ کیوں کہا کہ قطر یا کہیں اور سے کوئی مدد نہیں لی گئی کاروبار کے لیئے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں نے GDA میں نواز شریف کی مخالفت کی کیوں کہ وہ پندرہویں ترمیم کے ذریعے لامحدود اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

جہانگیر ترین اور نواز شریف کا نام ایک ہی کاروبار کے لین دین میں لینا انتہائی مضحکہ خیز بات ہے۔ ذرا موازنہ کریں ضہانگیر ترین نے ایک سال مین کتنا ٹیکس دیا ر نواز شریف نے چالیس سال میں کتنا ٹیکس دیا۔ گزشتہ چھ سال کے دوران جہانگیر ترین نے اپنے شیئر ہولڈرز کو 4 ارب منافع دیا۔ ہم چیلنج کرتے ہیں کہ نواز شریف نے چار لاکھ بھی ادا کیا ہو۔ جہانگیر ترین ٹیکس ادا کرتے ہیں اور اور شفاف کاروبار کرتے ہیں جبکہ یہ منافع چھپاتے ہیں اور ٹیکس ادا نہیں کرتے۔