ڈرگ ایکٹ میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور معیاری ادویات کی فراہمی کے لئے نیا سسٹم بنارہے ہیں، خواجہ عمران نذیر

30جون2017ء تک پنجاب کے تمام40ہسپتالوں میں طبی سہولتیں اورمریضوں کی سہولت سمیت دیگر اہم اقدامات کردئیے جائیں گے ہم نے اپنی غلطیوں پر بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھ رہے ہیں،یہ بھی دعوی نہیں کررہے دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں تاہم ہیلتھ سیکٹر میں بہتری لانے کے لئے کام ہورہا ہے، صوبائی وزیر صحت کا پنجاب اسمبلی میں اظہار خیال

بدھ 25 جنوری 2017 21:27

لاہور(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 25 جنوری2017ء) صوبائی وزیر صحت خواجہ عمران نذیر نے صحت پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ ڈرگ ایکٹ میں تبدیلیاں کی جارہی ہیں اور معیاری ادویات کی فراہمی کے لئے نیا سسٹم بنارہے ہیں۔30جون2017ء تک پنجاب کے تمام40ہسپتالوں میں طبی سہولتیں اورمریضوں کی سہولت سمیت دیگر اہم اقدامات کردئیے جائیں گے۔

ادویات کی ترسیل کا پہلے مناسب انتظام نہیں تھا اب ترسیل کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے کام کیا جارہا ہے انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم نے اپنی غلطیوں پر بہت کچھ سیکھا ہے اور بہت کچھ سیکھ رہے ہیں اور یہ بھی دعوی نہیں کررہے کہ دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں تاہم ہیلتھ سیکٹر میں بہتری لانے کے لئے کام ہورہا ہے وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے صحت پر بے پناہ توجہ دے رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ بجٹوں کی نسبت موجودہ بجٹ کئی گناہ بڑھ چکا ہے۔

(جاری ہے)

غیر ممالک کے دورے او رہسپتالوں کا پاکستان کے حالات سے تقابلی جائزہ لیتے ہوئے انہوںنے بتایاکہ ہم اپنے کم وسائل میں بہتر کام کررہے ہیں مگر ایک چیزجو ان کے کریڈٹ پر ہے وہ یہ ہے کہ وہاں ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل سٹاف ہڑتال کرتے ہیں اور نہ ہی مطالبات کے حق میں ہسپتالوں کی ایمرجنسیاں بندی کی جاتی ہیں۔ پاکستان میں بھی ایسے حالات پیدا ہوجائیں تو ہیلتھ سیکٹر میں بھی بہتری آسکتی ہے۔

ہیلتھ سیکٹر کی ترقی کیلئے اخلاقی حمایت کی ضرورت ہے۔ اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے جذباتی اور حکومت مخالف تقریر کرتے ہوئے توجہ دلائی کہ آج ایوان میں صحت پر بحث ہورہی ہے مگر گیلری میں سیکرٹری ہیلتھ ہی موجود نہیں ہیں۔ یہ ہے حکومت کی گڈ گورننس اوردعوئوں کی حقیقت انہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر اشرافیہ کو بہتری ادویات کی سہولت اور غریبوں کو ہسپتالوں میں دھکے ملتے ہے تو خونی انقلاب آئے گا۔

کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلم لیگ(ن)30سالوں سے حکمرانی کررہی ہے مگر ترجیح انسانوں کی نہیں سڑکوں کی تعمیر پر ہے۔ لاہور کے ہسپتال میں زہرا بی بی ایڑھیاں رگڑ رگڑ کر مر گئی اس کی انکوائری رپورٹ ابھی تک سامنے نہیں آسکی۔لاہور کے چھ بڑے ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں گیارہ ہزار مریضوں کے لئے صرف45وینٹی لیٹر ہیں مگر دس اضلاع کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں وینٹی لیٹر کی سہولت بھی نہیں ہے۔

حکومت اورنج ٹرین پر ڈھائی سو ارب روپے لگارہی ہے مگر ہسپتالوں کی بہتری کے لئی2ارب روپے لگانے کو تیار نہیں ہے۔ ٹی بی اور ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں اضافہ ہورہا ہے اور حکومت گا، گی اور گے میں پھنسی ہوتی ہے۔ پانی کے منصوبہ121ارب روپے سے 191ارب روپے تک جاپہنچا ہے مگر عوا ماب بھی گندا پانی پینے پرمجبور ہیں۔ہمارے احتجاج پر حکومت نے صحت کے لئی2وزیر تو بنادئیے ہیں مگر انہیں اختیارات نہیں دئیے گئے۔

انہوں نے اختیارات دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تعلیم کی طرح شعبہ صحت کو بھی سرمایہ داروں کے حوالے نہ کیا جائے۔ حکومتی رکن ڈاکٹر فرزانہ نذیر نے اپوزیشن کی تنقید کو مخالفت برائے مخالفت قرار دیا اور بتایا کہ حکومت نے شعبہ صحت پر نہ صرف توجہ دی ہے بلکہ بہت سے اقدامات بھی کئے ہیں۔ ٹیچنگ ہسپتالوں اور گائنی ہسپتالوں میں ادویات فری اور سہولتیں بے مثال ہیں۔

50مریضوں کی گنجائش والے ہسپتالوں میں پانچ سو مریضوں کے علاج کی سہولتیں فراہم کررکھی ہیں انہوںنے تجویز دی کہ مزید بہتری کیلئے ارکان اسمبلی کے ہسپتالوں کی مانیٹرنگ کرنے کی ڈیوٹیاں لگائی جائیں۔ حکومتی رکن ڈاکٹر نوشین حامد نے کہا صحت پر پنجاب ک یبجٹ کا0.9فیصد خرچ کیا جارہا ہے جس پر حکومت کی ترجیحات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے جس سے 80فیصد بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہوجاتا ہے۔

انہوںنے الزار لگایا کہ جعلی سٹنٹ فروخت کرنے والی کمپنی وفاقی وزیر کے قریب عزیز کی ہے۔ راحیلہ انور نے کہا کہ حکومت کو جان کی نہیں جہان کی فکر ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی صحت پر توجہ دینے کی بجائے سڑکو ںکی تعمیر پر کام کیا جارہا ہے افسوس کی با ت ہے کہ ہم لوگ دشمن ملک بھارت میں علاج کروانے کے لئے جاتے ہیں۔ ٹرانسپلانٹ پاکستان میں کیوں نہیں کیا جاسکتا۔

رانا محمد ارشد نے کہا کہ صحت پر بحث اپوزیشن کی خواہش پر کی جارہی ہے مگر اپوزیشن لیڈر اپنی تقریر کے بعدایوان پر غائب ہیں۔ حکومت کی صحت پر اولین ترجیح پر222ارب کا بجٹ کسی اورصوبے کا نہیں ہے۔ میاں محمد رفیق نے تجویز دی کہ ڈاکٹروں پر پرائیوٹ پریکٹس کرنے کی پابندی لگائی جائے اور پانچ سال کے لئے گارنٹی لی جائے کہ وہ دیہاتوں میں کام کریں گے۔

ڈاکٹر وسیم اختر نے تجویز دی کہ سٹنٹ چین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک سرمنگوانے کی بھی اجازت دی جائے۔ پاکستان کے ہسپتالوں میں تھرڈ کلاس ادویات فراہم کی جارہی ہیں۔ ہسپتالوں میں ایسی ادویات دی جائیں تو میاں شہبازشریف اور ان کے بچے استعمال کرتے ہیں۔ بحث میں امجد علی جاوید، ملک محمد ارشد، شعیب صدیقی سمیت متعدد ارکان نے حصہ لیا کارروائی مکمل ہونے پر اجلاس کل10بجے تک کیلئے ملتوی کردیا گیا۔(اے ملک)