سینیٹ سلیکٹ کمیٹی میں اطلاعات تک رسائی کے بل2016 کے 10نکات پر حکومت اور اپوزیشن متفق ،حساس معلومات تک رسائی سے متعلق اتفاق رائے نہ ہوسکا

حکومت ،فوج اور سیکیورٹی اداروں سے متعلق حساس معلومات بارے پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے،پارلیمانی کمیشن حساس معلومات کی ڈیمانڈ پر جائزہ لے سکے کہ کیا یہ عوامی مفاد یا قومی سلامتی کے خلاف تو نہیں ، سینیٹر پرویز رشید بہت ساری ایسی معلومات ہیں جو صرف منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی ہیں ، ایسی اہم اور حسا س معلومات عوام کے پاس نہیں ہونی چاہئیں، عوام کے تحفظ کیلئے قانون بنایا جارہا ہے، وزیر مملکت اطلاعات ونشریات مجوزہ پارلیمانی کمیشن میں زیادہ تر حکومتی لوگ ہوں گے تو وہ جلد دبائو میں آجائے گا، کمیشن کی بجائے رائٹ ٹو انفامیشن بل میں تجویز کردہ 3 رکنی وزارتی انفا رمیشن کمیشن بنانا بہترہوگا، چیئرمین کمیٹی سینیٹر فرحت اللہ بابرکا اظہار خیال

بدھ 25 جنوری 2017 17:51

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 25 جنوری2017ء) سینیٹ کی سلیکٹ کمیٹی میں اطلاعات تک رسائی کے بل2016 کے 10نکات پر حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق ہو گیا، حساس معلومات تک رسائی سے متعلق حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق رائے نہ ہوسکا۔کمیٹی رکن سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت ،فوج اور سیکیورٹی اداروں سے متعلق حساس معلومات بارے پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے،پارلیمانی کمیشن حساس معلومات کی ڈیمانڈ پر جائزہ لے سکے کہ کیا یہ عوامی مفاد یا قومی سلامتی کے خلاف تو نہیں ، چیئر مین کمیٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ کمیشن میں زیادہ تر حکومتی لوگ ہوں گے تو وہ جلد دبائو میں آجائے گا، پارلیمانی کمیشن کی بجائے رائٹ ٹو انفامیشن بل میں تجویز کردہ 3 رکنی انفا رمشن کمیشن بنانا بہترہوگا، جب بھی وزارت دفاع سے کوئی معلومات مانگی جاتی ہیں وہ پنڈی والوں کا نام لے کر اس کو چھپاتے ہیں، پنڈی والوں کا نام لے کر وفاقی بیوروکریسی جھوٹ بولتی ہے۔

(جاری ہے)

بدھ کو کمیٹی کا اجلاس چیئر مین کمیٹی سینیٹر فرحت اللہ بابر کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں سینیٹر سید شبلی فراز ، پرویز رشید، روبینہ خالد ، مختار احمد دھامراکے علاوہ وزیر مملکت مریم اورنگزیب ، وزارت اطلاعات نشریات و قانون و انصاف کے افسران نے شرکت کی ۔ چیئرمین کمیٹی فرحت اللہ بابر نے کہا کہ قومی سلامتی کے نام پر بہت سی معلومات عوام اور ارکان پارلیمنٹ کو فراہم نہیں کی جاتیں ،انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور بدعنوانی کے معاملات سے متعلق معلومات کی فراہمی میں کوئی قدغن نہیں ہونی چاہیے اور ان دو معاملات پر معلومات دینے سے انکار بھی نہیں کیا جا سکے گا۔

اجلاس میں کمیٹی کی طرف سے دوسرے ممالک میں معلومات تک رسائی کے قوانین کاجائزہ لینے کی ہدایت پر بتایا گیا کہ برطانیہ ، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھی دفاع ، سلامتی ، خفیہ اداروں سے متعلق معلومات کی فراہمی پر کسی حد تک قد غن موجود ہے۔سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کیا ہم دوسرے ممالک کی طرح آزادی دینے کو تیار ہیں اورکیا ہماری ایگزیکٹو برطانیہ جیسی ہے ۔

وزیر مملکت اطلاعات و نشریات مریم اورنگز یب نے کہا کہ معلومات تک رسائی کے بل میں بعض معلومات کا عوام کے ساتھ تبادلہ نہیں کرنا چاہئے ، بہت ساری ایسی معلومات ہیں جو صرف منتخب نمائندوں کے پاس ہوتی ہیں ، ایسی معلومات عوام کے پاس نہیں ہونی چاہئیں، عوام کے تحفظ کیلئے قانون بنایا جارہا ہے ۔ عوام کو باخبر ہونا چاہیے ۔ نظام کو مضبوط بنانے کیلئے کوششیں جاری ہیں ۔

سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ حکومت ،فوج اور سیکیورٹی اداروں سے متعلق حساس معلومات بارے پارلیمانی کمیشن بننا چاہئے،پارلیمانی کمیشن حساس معلومات کی ڈیمانڈ پر جائزہ لے سکے کہ کیا یہ عوامی مفاد یا قومی سلامتی کے خلاف تو نہیں ، جس پر چیئر مین کمیٹی نے کہا کہ کمیشن میں زیادہ تر حکومتی لوگ ہوں گے تو وہ جلد دبائو میں آجائے گا، پارلیمانی کمیشن کی بجائے رائٹ ٹو انفامیشن بل میں تجویز کردہ 3 رکنی انفا رمشن کمیشن بنانا بہترہوگا، اگر کوئی معلومات مانگنے پر نہ دی جائیں یا چھپائی جائیں اس کی شکایت انفارمیشن کمیشن کو کی جاسکے گی، انفارمیشن ک کمیشن پر آئندہ اجلاس میں غور کریں گے، معلومات کو ایسے چھپایا جاتاہے کہ وزراء ،وزیراعظم اور حکومتی عہدیدار سپریم کورٹ میں حلف نامہ جمع کرادیتے ہیں کہ ہمیں تو چار سال تک اس معلومات بارے میں علم ہی نہیں تھا ، جب بھی وزارت دفاع سے کوئی معلومات مانگی جاتی ہیں وہ پنڈی والوں کا نام لے کر اس کو چھپاتے ہیں، پنڈی والوں کا نام لے کر وفاقی بیوروکریسی جھوٹ بولتی ہے، قومی سلامتی سے متعلق سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو ان کیمرہ تفصیلات سے آگاہ کیا جا سکتا ہے ۔

اراکین پارلیمنٹ کو باتیں جاننے کا حق حاصل ہے ۔ سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ قومی سلامتی کا لفظ عام استعمال ہورہا ہے وضاحت ہونی چاہیے پیمانے مقرر کیے جانے چاہیں۔ کمیٹی چیئر مین سنیٹر فرحت اللہ بابر نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اطلاعات تک رسائی بل کے آج دس نکات پر حکومت اور ممبران کمیٹی میں اتفاق ہوگیا،بل کے کچھ نکات پر ترامیم تجویز کی گئی ہیں،قومی سلامتی کے نام پر بہت سے انفارمیشن عوام اور ارکان پارلیمنٹ کو نہیں دی جاتی،کمیٹی نے متفقہ فیصلہ کیا کہ اس بات تعین کیا جائے گا کہ کون سے معاملات قومی سلامتی کے ذمرے میں آتے ہیں۔

انسانی حقوق اور کرپشن کے معاملات پر کسی طرح کا استثنیٰ نہیں ہوگا۔انسانی حقوق اور بدعنوانی کے معاملات پر انفارمیشن دینے سے انکار نہیں کیا جاسکے گا۔ وزیر مملکت برائے اطلاعات ونشریات مریم اورنگزیب نے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ سے عوام کو اطلاعات تک رسائی کا حق مل جائے گا ۔ایکٹ کے تحت شفافیت اور گڈ گورننس کو یقینی بنایا جاسکے گا۔مسلم لیگ نواز اور وزیراعظم نے منشور میں اطلاعات تک رسائی کا جو وعدہ کیا تھا جو پورا کررہے ہیں۔ (رڈ)