لاہور ہائیکورٹ نے کرسچیئن قانون طلاق کو آئین سے متصادم قرار دینے کے لئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا

جمعہ 20 جنوری 2017 17:22

لاہور۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 20 جنوری2017ء) لاہور ہائیکورٹ نے کرسچیئن قانون طلاق کو آئین سے متصادم قرار دینے کے لئے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سید منصور علی شاہ نے مسیحی قانون طلاق کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کی۔ جمعہ کو عدالتی حکم پر وفاقی وزیر کامران مائیکل اور صوبائی وزیر خلیل طاہر سندھو، چرچ رہنما ،سیاسی شخصیات اور مسیحی عمائدین عدالت میں پیش ہوئے ۔

دوران سماعت وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کامران مائیکل نے عدالت کوبائیبل کی آیت پڑھ کر سنائی اور کہا کہ الہامی قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔بنیادی حقوق کے نام پرالہامی قانون میں تبدیلی مذہبی اصولوں کے منافی ہے۔انہوں نے کہا کہ ملک بھر کے بشپس کے ساتھ ملک کر قانون میں موجود سقم دور کرنے کے حوالے سے سفارشات مرتب کی جا رہی ہیں۔

(جاری ہے)

صوبائی وزیر برائے اقلیتی امور خلیل طاہر سندھو کے علاوہ کیتھولک،پروٹسٹنٹ اور پرسبیٹیرین چرچ کے بشبس نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ بائبل کی تعلیمات کے تحت مسیحی میاں بیوی کا رشتہ کسی صورت نہیں توڑا جا سکتا۔اقلیتی رکن پنجاب اسمبلی میری گل نے کہا کہ آئین میں مرد و عورت کی تخصیص کے بغیرعورتوں کوطلاق کے مساوی حقوق حاصل ہیں،،مسیحی قانون طلاق واضح طور پر امیازی قانون ہے۔

درخواست گزار کے وکیل شیراز ذکاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق بنیادی حقوق اور اخلاقیات کے عالمی قوانین سے متصادم ہے۔انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ مسیحی قانون طلاق کے تحت کوئی بھی عیسائی اس وقت تک اپنی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتا جب تک اس پر بد چلنی کا الزام لگا کر اسے ثابت نہ کر دے۔انہوں نے کہا کہ عدالت بنیادی حقوق سے متصادم اس ایکٹ کو کالعدم قرار دے۔ عدالت نے فریقین کے دلائل سُننے کے بعد دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔