ْپانامہ کیس ،کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پرآرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا ،سپریم کورٹ

دہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا،آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں، ، کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے،دہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے، سوال یہ ہے کہ موجودہ دستاویزات پر کیا وزیراعظم کو نااہل قراردیاجاسکتا ہی ،جسٹس شیخ عظمت سعید سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62اور 63کی تشریح ہر کیس کی بنیاد پر کی، ممکن ہے کہ اس سے متعلق آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں، وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں وزیراعظم کی تقریر پر عدالت میں بھی انحصار کیاجارہا ہے، معاملہ صرف یہ نہیں کہ تقریر پر کارروائی کی جائے،زیرسماعت مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے،تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کیلئے کی گئی تھی ،جسٹس آصف سعید کھوسہ رفیق تارڑ کے ساتھ بیان منسوب کیا گیا تھا،نوازشریف سے بیان منسوب ہوا نہ انہوں نے تردید کی،کیا آپ تقریر سے متضاد انٹرویو کی تردید کررہے ہیں، جسٹس اعجاز افضل خان وزیراعظم نے تقریر میں کہا وہ اس شق کا فائدہ نہیں اٹھائیںگے، کسی آئینی استثنیٰ کی ضرورت نہیں،جسٹس اعجازالحسن آرٹیکل66کو شامل کرنے کا مقصد اراکین کو آزادی اظہار رائے کا حق دینا تھا، جسٹس گلزار احمد یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی، میرا عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض نہیں، دوہری شہریت کی بنیاد پر نااہلی،صادق اور امین کی بنیاد پر نااہلی میں فرق ہے،جسٹس شیخ عظمت سعید کی آبزرویشن کو اپنے دلائل کا حصہ بناتاہوں،وزیراعظم کی تقریروںمیں تضاد پر دلائل دوں گا،ٹیکس گوشواروں اور مریم کے زیرکفالت ہونے پر دلائل دوں گا،تقریر،ٹیکس اور مریم کا زیرکفالت ہونا تین مختلف معاملات ہیں،ہر پہلو پر الگ دلائل دوں گا،جہاں ریکارڈ متنازع ہووہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی،سپریم کورٹ مجاز عدالت کو کارروائی کا کہتی ہے، وکیل وزیراعظم

پیر 16 جنوری 2017 13:57

ْپانامہ کیس ،کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پرآرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 16 جنوری2017ء) سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کے دوران جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 62 بھی آئین ہی کا حصہ ہے ،کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پرآرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا ۔پیر کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت شروع ہوئی تو وزیراعظم کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ نااہلی کے مقدمات میں فیصلہ شواہد ریکارڈ کرنے کے بعد ہوا۔

(جاری ہے)

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ دہری شہریت کے مقدمات میں فیصلہ براہ راست سپریم کورٹ نے کیا تھا،آپ اس نکتے کو کیوں بھول جاتے ہیں، ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ اپریل2012میں سپریم کورٹ نے یوسف رضا گیلانی کو سزا سنائی،یکم اپریل کو عدالت نے وفاقی حکومت کو سوئس حکام کو خط لکھنے کا کہا،26اپریل2012کو وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو سزاسنائی گئی،4مئی کو اسپیکر نے رولنگ دی تو معاملہ دوبارہ سپریم کورٹ میں آیا،19جون کو عدالت کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کو ہٹانے کا حکم دیا گیا،یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کے مقدمے میں سزا سنائی گئی،مخدوم علی خان نے مبشرحسن کیس سمیت متعدد عدالتی فیصلوں کی مثال پیش کیں،مخدوم علی خان نے کہاکہ یوسف رضا گیلانی کیس میں 7رکنی بینچ نے فیصلہ دیا تھا،لارجر بینچ کے فیصلے کی روشنی میں یوسف رضا گیلانی کی نااہلی کا فیصلہ آیا،وزیراعظم کے وکیل کے دلائل کے دوران جماعت اسلامی کے وکیل ڈائس پر آگئے،جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے کہاکہ جن فیصلوں کاحوالہ دیا جارہا ہے ان کی نقول فراہم کی جائیں۔

مخدوم علی خان نے کہاکہ دہری شہریت سے متعلق آرٹیکل63ون سی واضح ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کوئی اعتراف نہ بھی کرے تو عدالت کیس کا جائزہ لے سکتی ہے،دہری شہریت کے فیصلے میں یہ بھی واضح ہے،عدالت دائرہ اختیار رکھتی ہے،عدالت نے صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے،ریکارڈ سے کیس ثابت ہوتا ہے یا نہیں ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت نے ہر کیس کاحقائق کے مطابق جائزہ لیاتھا،دوہری شہریت کے حامل افراد کو صفائی کا موقع بھی دیاگیا،دہری شہریت کے فیصلے کی بنیادپرتقاریر پر نااہلی نہیں ہوسکتی۔

جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ موجودہ دستاویزات پر کیا وزیراعظم کو نااہل قراردیاجاسکتا ہی ،مخدوم علی خان نے کہاکہ میرا عدالت کے اختیار سماعت پر اعتراض نہیں۔ دوہری شہریت کی بنیاد پر نااہلی اور صادق اور امین کی بنیاد پر نااہلی میں فرق ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید کی آبزرویشن کو اپنے دلائل کا حصہ بناتاہوں،وزیراعظم کی تقریروںمیں تضاد پر دلائل دوں گا،ٹیکس گوشواروں اور مریم کے زیرکفالت ہونے پر بھی دلائل دوں گا۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62اور 63کی تشریح ہر کیس کی بنیاد پر کی، ممکن ہے کہ اس سے متعلق آئندہ بھی متعدد فیصلے آئیں۔مخدوم علی خان نے کہاکہ رینٹل پاور کیس میں عدالت نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف آبزرویشن دی،آبزرویشن کے باوجود راجہ پرویز اشرف کے خلاف نااہلی کا فیصلہ نہیں دیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا آپ کہنا چاہ رہے ہیں،3/184کے تحت صرف تصدیق شدہ حقائق سن سکتے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ تقریر،ٹیکس اور مریم کا زیرکفالت ہونا تین مختلف معاملات ہیں،ہر پہلو پر الگ الگ دلائل دوں گا،جہاں ریکارڈ متنازع ہووہاں سپریم کورٹ براہ راست کارروائی نہیں کرسکتی،سپریم کورٹ مجاز عدالت کو کارروائی کا کہتی ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ ایشو یہ نہیں کہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں،سوال یہ ہے کہ موجودہ دستاویزات پر کیا وزیراعظم کو نااہل قراردیاجاسکتا ہی ۔

مخدوم علی خان نے کہاکہ عدلیہ مخالف تقریر پر رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے،عدالت نے قراردیااخباری تراشوں پر کسی کو ڈی سیٹ نہیں کرسکتے،عدالت نے کہاایسے ڈی سیٹ کیا تو اسمبلی میں شاید کم لوگ ہی بچیں،وزیراعظم کی تقریر میں ایسا کچھ نہیں کہ آرٹیکل62ون لاگو ہوسکے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہاکہ کیا آپ وزیراعظم کی تقاریر کی تردید کر رہے ہیں ،رفیق تارڑ نے اپنی تقریر کی تردید کردی تھی،مخدوم علی خان نے کہاکہ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں غلط بیانی کی نہ ہی جھوٹ بولا۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ رفیق تارڑ کے ساتھ بیان منسوب کیا گیا تھا،نوازشریف سے بیان منسوب ہوا نہ انہوں نے تردید کی،کیا آپ تقریر سے متضاد انٹرویو کی تردید کررہے ہیں۔مخدوم علی خان نے کہاکہ عدالت کو یقین کرنا ہوگا 2مختلف افراد میں سے کون سچا ہے،پارلیمنٹ کی کارروائی کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔جسٹس اعجازالحسن نے کہاکہ وزیراعظم نے تقریر میں کہا وہ اس شق کا فائدہ نہیں اٹھائیںگے،وزیراعظم نے کہا تھا کسی آئینی استشنیٰ کی ضرورت نہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمنٹ میں صرف ججز کے کنڈکٹ پر بات نہیں کی جاسکتی،مجلس شوریٰ میں اظہار رائے کی مکمل آزادی ہوتی ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ وزیراعظم کی تقریر کی حیثیت صرف اسمبلی کا بیان نہیں،وزیراعظم کی تقریر پر عدالت میں بھی انحصار کیاجارہا ہے۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ پہلے آپ نے کہا کوئی غلط بیانی نہیں کی،پھر کہہ رہے ہیں اگر کی بھی ہے تو اسے استثنیٰ حاصل ہے۔

جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ اسمبلی میں تقریر مستثنیٰ ہے تو کیا اسے کیس کی بنیاد بنایا جاسکتا ہی ۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ معاملہ صرف یہ نہیں کہ تقریر پر کارروائی کی جائے،زیرسماعت مقدمہ مختلف نوعیت کا ہے،تقریر کسی موقف کو ثابت کرنے کیلئے کی گئی تھی۔جسٹس اعجاز الحسن نے کہاکہ ایک طرف کہتے ہیں جھوٹ نہیں بولاپھر استثنیٰ بھی مانگ رہے ہیں۔

جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ آرٹیکل66کو شامل کرنے کا مقصد اراکین کو آزادی اظہار رائے کا حق دینا تھا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہاکہ آرٹیکل66آزادی اظہار رائے کو تسلیم کرتا ہے،آزادی اظہار الگ ہے۔ اس تقریر کو کارروائی میں شامل کرنا الگ معاملہ ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ ان تقاریر سے صرف معاملے کا اندازہ لگانے کی کوشش ہورہی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہاکہ وزیراعظم کی تقاریر کا جائزہ آئین کے مطابق ہی لیاجاسکتاہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آرٹیکل 62آئین ہی کا حصہ ہے ،کیا اسمبلی میں کی گئی غلط بیانی پرآرٹیکل 62کا اطلاق نہیں ہوتا ۔مخدوم علی خان نے کہاکہ بھارتی عدالتوں کے ایسے فیصلے موجود ہیں کہ اطلاق نہیںہوتا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ کیابھارتی آئین میں بھی آرٹیکل62ہی ،مخدوم علی خان نے کہاکہ بھارتی آئین میں صادق اور امین کے لفظ موجود ہیں،وزیراعظم کے بیان میں کوئی تضاد ہے نہ ہی غلط بیانی،وزیراعظم نے اپنے خطاب میں کوئی جھوٹ نہیں بولا،پانامہ لیکس کیس کی سماعت کل منگل تک ملتوی کردی گئی