منرل واٹر کے نام پر غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جارہا ہے ، غیر معیاری منرل واٹر کی تیاری روکنے کے لئے سزاتین ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کی قید کر دی ، کئی کمپنیوں اور فیکٹریوں کو سیل کیا گیا، گیارہ برانڈز میں کیمیکلز کی آلودگی کا پتہ چلا ہے‘ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ نجکاری کمیشن میں ہے ‘ اس وقت اس کی پیداوار رکی ہوئی ہے، وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار سکیموں کو بند کیا جاچکا ہے، کئی آٹو موبائل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی لے رہی ہیں، ہنڈا اٹلس کار کے ماڈل کے معیار سے متعلقہ شکایت پر کارروائی کا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جائزہ لے سکتی ہے، پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مختلف کمپنیوں کے ذمہ بقایا جات کا معاملہ حل کیا جارہا ہے

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی تنویر حسین، وزیر قانون زاہد حامد اوروزیر صنعت غلام مرتضیٰ جتوئی کے سینیٹ میں سوالوں کے جواب

جمعہ 13 جنوری 2017 14:32

منرل واٹر کے نام پر غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جارہا ..
اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 13 جنوری2017ء) ایوان بالا کو حکومت کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ منرل واٹر کے نام پر غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر فروخت کیا جارہا ہے ، غیر معیاری منرل واٹر کی تیاری روکنے کے لئے سزاتین ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کی قید کر دی ہے ۔ غیر معیاری منرل واٹر کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے کئی کمپنیوں اور فیکٹریوں کو سیل کیا گیا ہے اور گیارہ برانڈز میں کیمیکلز کی آلودگی کا پتہ چلا ہے‘ عوام میں اس حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کا معاملہ نجکاری کمیشن میں ہے ‘ اس وقت اس کی پیداوار رکی ہوئی ہے۔ وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار سکیموں کو بند کیا جاچکا ہے۔ کئی آٹو موبائل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی لے رہی ہیں، ہنڈا اٹلس کار کے 2016ء ماڈل کے معیار سے متعلقہ شکایت پر کارروائی کا وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جائزہ لے سکتی ہے۔

(جاری ہے)

پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کے مختلف کمپنیوں کے ذمہ بقایا جات کا معاملہ حل کیا جارہا ہے۔جمعہ کو ایوان بالا میں وقفہ سوالات کے دوران وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ پینے کے پانی کے معیار کو یقینی بنانا پی ایس کیو سی اے اور پی سی آر ڈبلیو آر کا مینڈیٹ نہیں ہے۔ بوتلوں میں جو پانی ہوتا ہے اس کا معیار چیک کرنا ہمارا مینڈیٹ ہے۔

اسلام آباد میں پینے کے لئے صاف اور محفوظ پانی کی سپلائی کے لئے سی ڈی اے نے مختلف مقامات پر ٹیوب ویلز اور فلٹریشن پلانٹس نصب کئے ہیں۔ 35 بوتلوں والے پانی کی شکایات پر اس وقت کاروائی زیر عمل ہے۔ غیر معیاری کمپنیوں کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے‘ دن کو سیل بھی کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات درست ہے کہ بوتلوں والے پانی کی فراہمی کا مافیا بھی موجود ہے۔

ایک کمپنی کے خلاف ایک جگہ کارروائی کرتے ہیں تو وہ دوسری جگہ جاکر کام شروع کر دیتے ہیں۔ لوگ غیر محفوظ پانی خرید کر پی رہے ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں غیر محفوظ پانی فراہم کرنے والی 87 کمپنیاں اور فیکٹریاں سیل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک سال سے میں نے یہ روایت اختیار کی ہے کہ بڑی کمپنیوں سے کہیں کہ پانی کی چھوٹی بوتل فراہم کریں۔ بڑی بوتلوں سے پانی ضائع ہوتا ہے۔

اجلاسوں میں چھوٹی بوتلیں فراہم کرنی چاہئیں۔ چیئرمین سینٹ نے کہا کہ ایک 500 ایم ایل والی بوتل ہم دو افراد کے لئے فراہم کرتے ہیں۔ رانا تنویر حسین نے کہا کہ بوتلوں والے پانی کا معیار چیک کرنے کے لئے پہلے دو زون تھے میں نے تین کرائے ہیں اب ان کی تعداد بڑھا کر پانچ کرنا چاہتے ہیں۔ سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کے جواب میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ غیر معیاری منرل واٹر کی تیاری روکنے کے لئے سزائوں اور جرمانے کی رقم میں اضافہ کیا ہے۔

تین ماہ سے بڑھا کر پانچ سال کی قید کی سزا کی ہے۔ یہ درست ہے کہ غیر معیاری پانی بوتلوں میں بھر کر سپلائی کیا جارہا ہے۔ ہم پیسے دے کر زہر خریدتے ہیں۔ جولائی تا ستمبر 2016ء کے عرصے میں پی سی آر ڈبلیو آر نے معیار کا تجزیہ کرنے کی غرض سے 109 بوتل والے پانی کے برانڈز جمع کئے۔ ان میں سے 11 برانڈز کیمیکلز کی آلودگی کے باعث غیر محفوظ پائے گئے۔ پی سی آر ڈبلیو آر کے پاس ایسا کوئی قانونی اختیار موجود نہیں جس کے تحت آلودہ پانی کی بوتلوں کو فروخت کرنے والوں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔

عوام میں محفوظ پانی اور دیگر اشیاء کے حوالے سے آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔سینیٹر اعظم سواتی کے سوال کے جواب میں وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے وزارت کے تحت کام کرنے والی لیبارٹریوں کی آمدنی میں اضافہ کیا ہے۔ ان لیبارٹریوں کو مالی طور پر خود نکفیل بنانے کے لئے بھی حکومت نے اقدامات کئے ہیں۔ جو لوگ اپنا پانی چیک کرانے کے لئے لیبارٹریوں میں آتے ہیں ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو میں آمدنی نہیں سمجھتا ان لیبارٹریوں کو آمدن میں اضافہ کے لئے مختلف منصوبے بنانے چاہئیں۔

مختلف لیبارٹریوں کی آمدن ایک سال میں 7.4.044 ملین روپے ہے۔ وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ 2015-16ء کے دوران ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ سرچارج کے طور پر پانچ ہزار 365 اعشاریہ 62 ملین روپے وصول کئے گئے۔ ایکسپورٹ کم ہونے کی وجہ سے گزشتہ سالوں کے مقابلے میں اس رقم میں کمی آئی۔ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی رانا تنویر حسین نے بتایا کہ پاکستان سٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی کی کارکردگی بڑھانے کے لئے حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں۔

اس کی تنظیم نو بھی کی گئی ہے تاکہ اس کی کارکردگی بہترین بین الاقوامی روایات کے مطابق بنائی جاسکے۔ دو ارب روپے کے ہمارے بقایا جات مختلف اداروں کے ذمے ہیں۔ عدالت میں اس حوالے سے مقدمہ چل رہا ہے‘ ہم کمپنیوں کے خلاف عدالت میں گئے ہیں۔ یہ معاملہ حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وزیر برائے صنعتیں و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ ہنڈا اٹلس کار کا 2016ء ماڈل اگر مقررہ معیار کا نہیں ہے تو اس کی فروخت پھر بھی بہت زیادہ ہے۔

ایک کی بجائے دو شفٹوں میں کام ہو رہا ہے۔ کوالٹی کنٹرول ہماری وزارت کا نہیں وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ادارے کا ہے۔ وزیر برائے صنعتیں و پیداوار غلام مرتضیٰ جتوئی نے بتایا کہ حکومت نے ملک میں انجینئرنگ کے شعبے کی پیداوار بڑھانے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے ہیں۔ کئی آٹو موبائل کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے دلچسپی لے رہی ہیں۔

وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار سکیموں کے لئے تخصیص میں اضافے کی کوئی تجویز حکومت کے زیر غور نہیں ہے۔ یہ دونوں سکیمں بند ہو چکی ہیں۔ ان میں کئی مسائل تھے۔ 2013ء میں ان سکیموں کو بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ بی آئی ایس پی پروگرام کا دائرہ ہم نے وسیع کیا ہے۔ وسیلہ حق اور وسیلہ روزگار کو بند کرنے کے پیچھے کوئی سیاسی وجہ نہیں ہے۔

وزیر صنعتیں و پیداوار نے بتایا کہ 30-11-2016ء تک پاکستان سٹیل ملز کے ذمہ گیس کے بل کی مد میں 46.25 ارب روپے کی رقم واجب الادا ہے۔ حکومت کی جانب سے سٹیل ملز کی نجکاری کے عمل کے لئے بھرپور کوششیں کی جارہی ہیں۔ ان ملز کو امدادی پیکج فراہم کرنے کی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔ اپریل 2014ء میں مل چھ فیصد سی اے یو پی پر کام کر رہی تھی۔ امدادی پیکج کے نتیجے میں خام سٹیل کی پیداوار جولائی 2014ء کے 9.4 فیصد سے بڑھ کر اکتوبر 2014ء تک 40.6 فیصد ہوگئی۔

اس وقت پیداوار رکی ہوئی ہے۔ وزیر صنعتیں و پیداوار نے بتایا کہ سٹیل ملز کی لیز میں چین اور ایران بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے جو بھی فیصلہ کرنا ہے نجکاری کمیشن نے کرنا ہے۔ ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کے سوال کے جواب میں وزیر قانون زاہد حامد نے کہا کہ جو قرضے حاصل کئے گئے ہیں وہ اپنی استعداد کو مدنظر رکھ کر لئے گئے ہیں۔